زیر مطالعہ حدیث میں تین چیزوں کا تذکرہ تھاکہ جن پر اللہ کی طرف سے اس اُمت کے لیے معافی کا اعلان ہے :(۱)خطا‘ (۲) نسیان‘اور (۳) وہ کام جن کے کرنے پر کسی شخص کو مجبور کر دیا گیاہو.سورۃ البقرۃ کی بیان کردہ آیت میں پہلی دو باتوں کی وضاحت ہو گئی . تیسری چیز جبر اور اکراہ ہے‘یعنی وہ کام جس کے کرنے پر کسی کو بے انتہا مجبور کردیا جائے اور اس کے پاس اُس کام کوکرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہے.ایسی صورت میں کیا جانے والا فعل قابل مؤاخذہ نہیں ہے.یہ جبر دو طرح کا ہو سکتا ہے‘ ایک جبر خارجی ہے اور ایک جبر داخلی ہے . خارجی جبرتو یہ ہے کہ کوئی شخص آپ کو قتل کرنے پر تلا ہوا ہے کہ کفر کرو ورنہ میں تمہیں قتل کرتا ہوں. ایسی صورت میں جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دیا جائے تواس کی اجازت ہے.
اس حوالے سے ایک اہم واقعہ تاریخ کی کتابوں میںموجود ہے.مکہ مکرمہ میں تین افراد پر مشتمل ایک خاندان تھا: حضرت سمیہ‘ حضرت یاسراورحضرت عمار بن یاسر رضوان اللہ علیہم اجمعین. عمار بیٹے ہیں اور سمیہ اور یاسر ماں باپ ہیں.ان کا قصہ اصل میں یہ ہے کہ یاسر یمن کے رہنے والے تھے اورانہیں خواب میں بشارت ہوئی کہ مکہ کی سرزمین میں نبی آخر الزماںﷺ کا ظہور ہونے والا ہے‘تو وہ وہاں سے مکہ آ گئے. مکہ کا دستور یہ تھا کہ وہاں یا تو قرشی رہ سکتا تھایا قرشی کا غلام یا قرشی کا حلیف .کوئی شخص اگر مکہ سے باہر سے آ کر وہاں رہائش پذیر ہونا چاہتا تو اُس کے پاس دو اختیار تھے کہ یا تو کسی قرشی کی غلامی میں آئے یا پھر کسی قرشی سردار کا حلیف بن کراس کے تحفظ (protection) میں آجائے.
مثال دے رہا ہوں‘جیسے آج کل آپ سعودی عرب میں کوئی کاروبار کرنا چاہیں تو اس کاروبار کی شرط یہ ہے کہ ایک سعودی باشندہ لازماً ’’کفیل‘‘ ہو گا اور اس کے ساتھ مل کر آپ کام کریں گے. اس کا فائدہ وہاں کے باشندوں کو یہ ہوتاہے کہ باہر سے آنے والا‘مثلاًکوئی ہندوستانی یا پاکستانی سعودی عرب میں کاروبار کرتا ہے‘دن رات محنت مزدوری کرتا ہے‘لیکن اس کی کمائی میں سے ملائی وہ سعودی باشندہ لے جاتا ہے.ہے تو یہ بالکل ناانصافی‘لیکن بہرحال یہ سعودی عرب کاقانون ہے. اسی طرح دورِ جاہلیت میں بھی قاعدہ تھا کہ مکہ کے باہر سے آنے والا کسی قرشی کا غلام بن کر رہے یا حلیف بن کر. چنانچہ یاسر یمن سے مکہ آئے اور یہاں آ کر ابوجہل کے ایک چچا‘ جو نیک آدمی تھا‘ کی کفالت اور حمایت میں اس کے حلیف بن کر مکہ میں رہنے لگے. اسی کی ایک لونڈی سمیہ تھی تو اُس کی اجازت سے یاسر نے سمیہ سے شادی کر لی اور اللہ نے انہیں عمار بیٹا دیا. نبی اکرمﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ گھرانہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا.
ابوجہل کا وہ چچا جب فوت ہو گیا تو وراثتاً یہ سارا خاندان ابوجہل کو منتقل ہو گیا جو اسلام کا بدترین دشمن تھا.ابوجہل نے پھر ان پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے اور جس حد تک تشدد کیا‘اس کا تذکرہ کرتے اور سنتے وقت انسان پر جھرجھری طاری ہو جاتی ہے. حضرت عمار رضی اللہ عنہ نوجوان تھے‘ ان کو ایک درخت کے تنے کے ساتھ باندھ دیا گیا اور ان کی نگاہوں کے سامنے ان کی ماں کو برہنہ کر کے جگہ جگہ کچوکے لگائے گئے کہ باز آجاؤاور اسلام سے بیزاری کا اعلان کردو!یہاں تک کہ ابوجہل کے ہاتھ میں ایک بت تھا‘ ابوجہل نے کہا کہ ایک دفعہ کہہ دو کہ ہاں یہ بھی کوئی معبودہے اوراس میں بھی کوئی حقیقت ہے‘لیکن حضرت سمیہ رضی اللہ عنہانے اس پر تھوک دیا. اس بدبخت نے غصے میں آکر حضرت سمیہ کی شرم گاہ پر برچھا مارااور انہیں شہید کر دیا(حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی پہلی شہید خاتون ہونے کا شرف حاصل ہوا). اسی طرح کا معاملہ حضرت یاسر رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی ہوا اوران کو بھی بہت اذیت ناک طریقے سے شہیدکیا گیا.ابوجہل نے چار طاقتور اونٹ لیے اور ان میں سے ایک کے ساتھ حضرت یاسر کاایک ہاتھ‘ دوسرے کے ساتھ دوسرا ہاتھ‘ تیسرے کے ساتھ ایک ٹانگ اورچوتھے کے ساتھ دوسری ٹانگ باندھ دی اور پھر چاروں اونٹوں کو مختلف سمتوں میں اس طرح دوڑایا کہ حضرت یاسر رضی اللہ عنہا کے جسم کے پرچخے اُڑ گئے.