اب تک خارجی جبر کی بات ہوئی کہ ابوجہل ستا رہا تھا‘ اذیت دے رہا تھا‘جان کے درپے تھا تو جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دیا . اسی طرح ایک داخلی جبر بھی ہے‘وہ یہ کہ انسان بھوک سے مر رہا ہے ‘لیکن اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے.اس حالت کو اضطرارکہتے ہیں اور اضطراری حالت میں اگر انسان کو ئی حرام چیز بھی کھا لے تو اس کی اجازت ہے‘لیکن اس کے لیے دو شرائط ہیں. قرآن مجید میں یہ مضمون پانچ مرتبہ آیا ہے. فرمایا : فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (البقرۃ:۱۷۳) ’’پھر جو کوئی مجبور ہو جائے اور وہ خواہش مند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ .اس سے پہلے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ چیزیں حرام کر دی ہیں‘ مردار‘ خون‘ خنزیر کاگوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی کا نام پکارا گیا ہو. پھر فرمایا کہ اگرکوئی اضطرار میں آ گیا ہو‘ مجبوری میں مر رہا ہو تو پھر وہ سور بھی کھا سکتا ہے ‘مردار بھی کھا سکتا ہے اور غیر اللہ کے نام پر ذبح ہونے والے جانور کا گوشت کھا کر بھی اپنی جان بچا سکتا ہے.لیکن اس کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں‘ایک تو وہ اس حرام کی طرف رغبت اور میلان نہ رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ جان بچانے کے لیے جو ناگزیر مقدار ہے اس سے آگے نہ بڑھے . ان دو شرطوں کے ساتھ حالت اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھائی جا سکتی ہے . لہٰذا ہمارے ہاں فقہ کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے: ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ یعنی جہاں مجبوریاں ہوگئی ہوں وہاں ممنوع چیزوں کی بھی اجازت ہوتی ہے .لیکن وہ اضطرار کی حالت میں ہے. یہ نہیں کہ ذرا سی آسانی دیکھ لی یا ذرا سی مشکل آئی تو حرام میں منہ مار لیا. دل میں ایک خیال آیا کہ ہم اس وقت تک اپنا کاروباروسیع نہیں کر سکتے جب تک سودکو کاروبار میں شامل نہ کریں… تو اس کی کسی صورت اجازت نہیں ہے.البتہ بھوک سے مر رہے ہوں اور کوئی ذریعہ نہ ہو تواس صورت میں جان بچانے کے لیے حرام شے بھی حلال ہو جائے گی.