اب اگلی حدیث کی طرف آتے ہیں. یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے‘جبکہ پہلی روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی تھی ‘جن کے بارے میں حضورﷺ نے یہ دعا کی تھی : اَلّٰلھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ (۱) ’’اے اللہ! اس نوجوان کو دین کا فہم اور قرآن کی تاویل سکھا دے ‘‘. تفسیر میںایک ایک لفظ کے لغوی و معنوی مفاہیم کے حوالے سے بات ہوتی ہے ‘جبکہ بحیثیت مجموعی اس آیت کا مدعا بیان کر دینا یہ تاویل ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے چار ’’عبادلہ‘‘ مشہور ہیں اور چاروں نوجوان ہیں. عبداللہ بن عمر‘ عبداللہ بن زبیر‘ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین.زیر مطالعہ روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے (۱) مسند احمد‘ کتاب ومن مسند بنی ہاشم‘ باب بدایۃ مسند عبداللّٰہ بن العباس. بیٹے عبداللہؓ سے مروی ہے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میںحضورﷺ کے اتباع کا بہت زیادہ جذبہ تھا.چنانچہ جو لوگ حدیث کا زیادہ ذوق رکھتے ہیں‘ان کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ زیادہ ذہنی مناسبت ہوتی ہے. اس ذوقِ حدیث کے حوالے سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے . وہ فرماتے ہیں: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِمَنْکِبَیَّ فَقَالَ: ’’اللہ کے رسولﷺ نے مجھے میرے دونوں کندھوں سے پکڑا اور پھر فرمایا:
کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ
’’دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر!‘‘
دنیا سے تمہاراتعلق بس اسی قدر رہنا چاہیے. اس سے زیادہ اگر دنیا کے ساتھ دل لگا لیا تو تباہی اوربربادی ہے ‘اس لیے کہ یہ دنیاتو راہ گزر ہے‘ منزل نہیں ہے اورراہ گزر میں آدمی تھوڑی دیر آرام کے لیے کہیں بیٹھ سکتا ہے‘لیکن وہاں مستقل ڈیرے نہیں لگا لیتا. چنانچہ حضورﷺ نے خود اپنے بارے میں یہ مثال دی: مَا لِی وَمَا لِلدُّنْیَا ’’دیکھو لوگو! میرا دنیا سے کیا سروکار‘‘.آپﷺ نے تودنیا سے کوئی سروکار رکھا ہی نہیں. جب آپؐ عرب کے بادشاہ بن گئے تب بھی آپؐ کے ہاں تو کئی کئی وقت کا فاقہ ہوتا تھا. مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا (۱) ’’میں تو دنیا میں اس طرح ہوں کہ جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سائے کی وجہ سے بیٹھ گیا‘ پھر وہاں سے روانہ ہوگیا اور درخت کو چھوڑ دیا‘‘. درخت اس کی منزل نہیں ہے‘ اس کا گھر نہیں ہے. یہ تو اس کاعارضی سا قیام تھا جسے وہ یاد بھی نہیں رکھتا کہ میری زندگی کے اندر کوئی درخت بھی آیا تھا. بس صرف اس حد تک دنیا کے اندر دلچسپی کی اجازت ہے ‘اور اگر اس سے زیادہ ہے تو پھر یہ دھوکہ ہے.