قرآن حکیم میں یہ مضمون کئی دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوا ہے.مثلاً سورۃ الممتحنۃ میں فرمایا: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡہِمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ ؕ (آیت ۶) ’’تمہارے لیے یقینا ان (کے طرزِعمل) میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے اُس کے لیے جو اللہ تعالیٰ (سے ملاقات) اور یومِ آخرت کی اُمید رکھتا ہو‘‘.سورۃ الکہف کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے : قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪ ’’(اے نبیﷺ !) ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری ہی طرح کا ایک انسان ہوں ‘(بس فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے .پس جو بھی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے اسے نیک عمل کرنے چاہئیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے.‘‘
سورۃ العنکبوت میں فرمایا گیا: مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ؕ (آیت۵) ’’جو کوئی بھی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے وہ مطمئن رہے کہ اللہ کی ملاقات کا وقت آ کر رہے گا ‘‘. یعنی وہ لوگ جواللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ‘ مصیبتیں جھیل رہے ہیں‘ تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ‘ وہ یہ سب اس امید میں کر رہے ہیں کہ ایک روز اللہ کے حضور میں حاضری ہو گی اوراللہ عزوجل ہمیں اپنی ان سرفروشیوں ‘ جانفشانیوں اور قربانیوں کااجر عطا فرمائے گا. شیطان وسوسہ اندازی کرتا رہے‘ لوگ کہتے رہیں کہ کس خیال میں پڑے ہوئے ہو ‘ کس نے آخرت کو دیکھا ہے‘مرنے کے بعد آج تک کسی نے آ کے کوئی خبر دی ہے‘ کس امید موہوم میں تم اپنے آپ کو ہلکان کر رہے ہو؟ پتا نہیں وہ دن آتا بھی ہے کہ نہیں آتا ‘اس لیے کہ آخرت تو ادھار کا سودا ہے‘ جبکہ دنیا نقد کا معاملہ ہے اور عام طور پر قاعدہ بھی یہی ہے کہ ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ یعنی تمہیں اگر کسی شے کے نو روپے نقد مل رہے ہیں تو وہ لے لو‘ تیرہ روپے میں ادھار کا سودا مت کرو! کیا پتا ادھار ملے نہ ملے اور رقم پوری مر جائے. یہ وسوسہ شیطان پیدا کرتا ہے کہ پتا نہیں وہ دن آتا بھی ہے کہ نہیں آتا.تو زیر مطالعہ آیت میں اسی حوالے سے فرمایا کہ انہیںیقین رکھنا چاہیے کہ وہ وقت معین آ کر رہے گا اور وہ اپنے رب کی ملاقات سے ضرور سرفراز ہوں گے.
یہ مضمون سورۃ الزمر میں بھی آیا ہے: اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ (آیت۹) ’’بھلا وہ شخص جو بندگی کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں ‘سجود و قیام کرتے ہوئے‘ وہ آخرت سے ڈرتا رہتا ہے‘ اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے!‘‘ پھریہی مضمون سورئہ بنی اسرائیل میں بھی آیا ہے کہ یہ مشرکین جن ہستیوں کو پکارتے ہیں ‘یعنی انبیاء‘ صدیقین ‘ اولیاء اللہ یا ملائکہ ‘وہ فی الواقع موجود ہیں اور ان کے وجود سے تو انکار نہیں ہے‘ باقی ان کے بارے میں جو کچھ انہوں نے عقائد یا تصورات گھڑ لیے ہیں‘ ان کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے‘ نہ عقل میں‘ نہ نقل میں اور نہ ہی وحی میں. فرمایا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ﴿۵۷﴾ ’’وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے قرب کے متلاشی ہیں کہ ان میں سے کون (اُس کے) زیادہ قریب ہے اور وہ امیدوار ہیں اُس کی رحمت کے اور ڈرتے رہتے ہیں اُس کے عذاب سے.واقعتا آپؐ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے‘‘.جیسے کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا:’’کوئی شخص محض اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘.کسی صحابیؓ نے بڑی ہمت کر کے پوچھ لیا کہ کیا حضورﷺ آپ بھی؟ فرمایا : وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَۃٍ (۱) ’’نہیں میں بھی نہیں‘ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اوررحمت (کے دامن) میں ڈھانپ لے. ‘‘