بسم اللہ الرحمن الرحیم 

نحمَدہ وَ نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
 
شاید ہی کوئی سلیم الفطرت شخص اس بات سے انکار کر سکے کہ ہمارے معاشرہ میں شادی بیاہ‘ ولادت اور فوتگی کے مواقع پر جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر ہندوانہ تہذیب کی باقیات السیئات ہیں اور ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے. ہمارا دین‘ دین فطرت ہے. لہذا اس نے فطرت کے مطابق اجتماعی عدل کے پیش نظر ان تمام مواقع اور تقاریب کے لیے اسلامی معاشرہ کی عدل و قسط پر مبنی رہنمائی فرمائی ہے اور کسی معیار کے خاندان کے لیے بھی اسے ناقابل برداشت بوجھ نہیں بنایا ہے.

محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ‘ نے ان رسومات کی اصلاح کی طرف اپنی تقاریر میں لوگوں کی توجہ دلانی شروع کی اور علامہ اقبال کے اس مصرعہ ؏ ’’یاسراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر‘‘ کے مصداق۱۹۷۳ء میں اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ابصار احمد صاحب کی شادی کے موقع پر اپنے خاندان سے اس کی طرف اصلاحی پیش قدمی شروع کی. لہذا موصوف کا نکاح اس ارشادِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مطابق : 
اَعْلِنُوْا ھٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ مسجد میں ہوا… بعدہٗ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی بچیوں اور فرزندوں کی شادی کے مواقع پر اپنی پیش کردہ اصلاحی تحریک کے مطابق عمل درآمد شروع کر دیا. چنانچہ اس کتابچے کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب کی وہ تحریر شامل ہے جو موصوف نے ستمبر ۱۹۸۱ء کے میثاق کے لیے سپرد قلم فرمائی تھی. اس تحریر کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی پوری اصلاحی تحریک اور اس پر ان کے اپنے عمل کا پورا نقشہ سامنے آ جائے گا. الحمدللہ اس تحریک کے اثرات رفتہ رفتہ مترتب ہو رہے ہیں اور اس سے متأثر ہو کر پنجاب خاص طور پر لاہور میں بہت سے اہل ثروت حضرات نے اس پر عمل شروع کر دیا ہے. اللہ تعالیٰ اس کو مزید کامیابی عطا فرمائے. 

محترم ڈاکٹر صاحب نے جب دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز کیا تو دعوت کے نفوذ کے ساتھ ہی دعوت کے وابستگان کے یہاں سے اپنے اور اپنے عزیزوں کے بچوں ‘بچیوں کے نکاح پڑھانے کے لیے اصرار ہونے لگا. ڈاکٹر صاحب کے نزدیک خطبۂ نکاح کی اصل غرض و غایت موقع کی مناسبت سے تذکیر و تلقین اور نصیحت ہے‘ لہذا موصوف نے خطبۂ نکاح کے ساتھ اردو میں خطاب کو معمول بنا لیا تاکہ تذکیر کا حق ادا ہو سکے اور خطبۂ نکاح کا ہماری معاشرتی زندگی سے جو گہرا ربط و تعلق ہے وہ واضح ہو سکے. اس عاجز نے مختلف خطابات سے اہم نکات لے کر اس کو کتابچے کی شکل میں ۱۹۷۹ء میں اپنی دو بچیوں کی شادی کے موقع پر شائع کیا تھا. اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے فرزند ارجمند ڈاکٹر عارف رشید سلمہٗ کی شادی کے موقع پر اسے ’’میثاق‘‘ میں بھی شائع کیا گیا. اکثر احباب کا اصرار تھا کہ ان دونوں اہم چیزوں کو یکجا مستقل طور پر انجمن کی مطبوعات میں شامل کیا جائے. چنانچہ بفضلہ تعالیٰ یہ کام انجام پا گیا ہے. 
وما توفیقی الا باللّٰہ!

احقر جمیل الرحمٰن عفی عنہ