اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ الحمد للہ ہمارے اس کام میں پیش رفت ہو رہی ہے اور تین اعتبارات سے معاملہ بہت اطمینان بخش ہے. ایک یہ کہ گو ہمارے کام کی رفتار کچھ زیادہ تیز نہیں رہی تاہم الحمد للہ‘ ثم الحمد للہ‘ اس میں تسلسل اور تواتر موجود ہے. طوفان کے مانند اٹھنے اور بگولے کی طرح رخصت ہو جانے کے مقابلے میں یہ سست رفتاری کہیں بہتر ہے اور ’’سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ کے مصداق توقع ہے کہ اس سے ان شاء اللہ پائیدار نتائج پیدا ہوں گے.دوسری بات یہ کہ گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہمارے اس کام کے بھی دو بڑے بڑے گوشے ہیں اور الحمد للہ کہ ان کے مابین توازن و اعتدال برقرار ہے. ایک گوشہ رجوع الی القرآن کی تحریک کا ہے‘ جس کے پیش نظر قرآن حکیم کے نورِ ہدایت کو پھیلانا اور اس کے انقلابی فکر کو عام کرناہے. اس نور کا اتمام اللہ تعالیٰ نے فرمادیا اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا ‘ اب ہمارا کام اس کا افشا کرنا ہے. یعنی اسے چہاردانگ عالم تک پھیلانا اور ہر ممکن طریقے سے اس کا ابلاغ کرنا اب ہمارے ذمے ہے. اس کے لیے جہاں عوامی سطح پر قرآن کے ذریعے وعظ و نصیحت کا کام ضروری ہے وہاں دانشوروں اور intellectuals کے لیے ان کی علمی سطح کے مطابق اس کا ابلاغ بھی اسی قدر ضروری اور لازمی ہے دوسرا گوشہ اقامت دین کی جدوجہد کا ہے کہ قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا محض ایک مشغلہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس تعلیم و تعلّم قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا پہیہ بھی متوازی چلنا چاہیے. غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد اور اس کے لیے تنظیم اور تحریک کا کام بھی متوازن انداز میں آگے بڑھنا چاہیے. الحمد للہ کہ یہ دونوں کام بہت حد تک متوازن انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں. 

تیسری بات یہ کہ آئندہ کے تسلسل کے بارے میں بھی مجھے اطمینان ہے کہ یہ کام ان شاء اللہ العزیز جاری رہے گا. ویسے بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اب عمر کے جس حصے میں ہوں اس کے بعد تو’’نَافِلَۃً لَّکَ‘‘ کا درجہ رہ جاتا ہے.اس لیے کہ ۲۶/اپریل کو میری عمر کے ساٹھ برس مکمل ہو رہے ہیں اور مسنون عمر تو کل اکسٹھ یا ساڑھے اکسٹھ برس ہی بنتی ہے. نبی اکرم کی عمر ۶۳ برس قمری حساب سے تھی‘ شمسی حساب سے یہ قریباً ۶۱برس بنتے ہیں. میری اس بات کو غلط مفہوم میں نہ لیاجائے کہ معاذ اللہ میں حضور اکرم کے ساتھ اپنی کوئی مشابہت ثابت کرنا چاہتا ہوں‘ بلکہ میں دیانتاً یہ سمجھتا ہوں اور اپنے ان قریبی ساتھیوں سے اکثر یہ بات کہتا ہوں جو اس عمر کو پہنچے ہوئے ہوں ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد آدمی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسنون عمر تو پوری ہوئی‘ اب بقیہ زندگی بونس ہے‘ یہ ’’نَافِلَۃً لَّکَ‘‘ کے درجے کی چیز ہے. اس کا ایک ایک لمحہ اللہ کے دین کی خدمت کے لیے صرف ہونا چاہیے.