اب تک جو باتیں میں نے عرض کی ہیں وہ اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر‘ بالخصوص ماہِ رمضان المبارک کے دوران مختلف اجتماعات میں ‘بیان کر چکا ہوں. آج میں ایک اور اہم بات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جو مرکزی انجمن خدام القرآن کے حالیہ سالانہ اجلاس کے موقع پر میں بطورِ تحفہ شرکاء اجتماع کے سامنے رکھنا چاہتا تھا‘ لیکن چونکہ وہاں ذیلی انجمنوں کے نمائندگان کی تقاریر زیادہ طویل ہو گئیں تو وقت کی کمی کے پیش نظر میں نے اپنی اس گفتگو کو ملتوی کر دیا. چنانچہ وہ تحفہ میں آپ کی خدمت میں اب پیش کر رہا ہوں‘ اور اس کا تعلق قرآن مجید کی قوتِ تسخیر اور اس پر اعتماد اور توکل سے ہے.
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ بندۂ مؤمن کے لیے اصل سہارا اللہ کی ذات ہے‘ اور خواہ کوئی ظاہری اور مادی سہارا موجود نہ ہو اور بظاہر ہر طرف سے مایوسی نظر آتی ہو‘ ایک بندۂ مؤمن اللہ ہی پر توکل کرتا ہے اور اس کی رحمت کی آس لگائے رکھتا ہے. قرآن حکیم میں جابجا اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے : وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ یعنی اہل ِایمان کو تواللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے. لیکن میں آج جان بوجھ کر قرآن حکیم پر اعتماد اور توکل کے الفاظ استعمال کر رہا ہوں تاکہ لوگ چونکیں‘ ان کے ذہنوں میں سوال اٹھے اور وہ توجہ سے اس بات کو سنیں کہ قرآن کی قوتِ تسخیر اور اس پر توکل و اعتماد کے بارے میں وہ کیا بشارتیں ہیں کہ جو خود قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں.