اسی ضمن میں ایک اور بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘اگرچہ یہ ایک نازک سا مسئلہ ہے . میرے درسِ قرآن سننے والے اکثر حضرات کے علم میں ہے کہ اہم مضامین قرآن مجید میں تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ کم از کم دو مرتبہ ضرور آتے ہیں. ان میں سے ایک اہم مضمون یہ بھی ہے کہ ’’رسول‘‘ اور ’’کتاب‘‘ دونوں مل کر ایک حیاتیاتی اکائی (organic whole) کی مانند ایک وحدت بنتے ہیں‘اور دنیا میں جو بھی خیر وجودمیں آتا ہے اور جو بھی انفرادی یا اجتماعی تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ درحقیقت ان دونوں کی مشترک تاثیر کا نتیجہ ہے. اب میں قرآن حکیم کے ان دو مقامات کا حوالہ دوں گا جہاں رسول اور کتاب کو ایک وحدت کے طو رپر بیان کیا گیا ہے. سورۃ البینہ میں فرمایا گیا: لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾ ’’نہیں تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا مشرکین میں سے اور اہل ِکتاب میں (۱) واضح رہے کہ یہ خطاب ۱۹۹۲ء کا ہے. تاہم بعد ازاں بحمد اللہ وبعونہ تمام بھائیوں نے دعوتِ قرآنی کی اس تحریک میں اپنے اپنے انداز سے اپنا اپنا حصہ ڈالا. سے باز آنے والے جب تک کہ ان کے پاس ’’بیّنہ‘‘ (یعنی واضح دلیل) نہ آ جاتی‘‘. اگلی آیت ’’بیّنہ‘‘ کی وضاحت پر مشتمل ہے: رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾ ’’(یعنی) ایک رسول اللہ کی طرف سے پڑھتا ہوا (اللہ کے) پاکیزہ صحیفوں کوجن میں محکم کتابیں ہیں.‘‘
گویا ’’رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ اور ’’صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَـیِّمَۃٌ‘‘ یہ دونوں مل کر ’’بیّنہ‘‘ بنتے ہیں. اس کی دوسری مثال سورۃ الطلاق میں ہے‘ جہاں فرمایا گیا:
قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا ﴿ۙ۱۰﴾رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (آیت۱۱)
’’ہم نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کر دیا ہے (یعنی) ایک رسول جو تمہیں پڑھ کر سناتا ہے اللہ کی واضح آیات تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کریں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے!‘‘
تو معلوم ہوا کہ ’’ذکر‘‘ بھی رسول اور کتاب دونوں کا مرکب ہے اور ’’بیّنہ‘‘ بھی. اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ دو اجزاء پر مشتمل کسی مرکب کے ایک جزو کو اگر آپ زیادہ اہمیت دے دیں گے تو دوسرے جزو کی اہمیت اسی نسبت سے کم ہو جائے گی. اگر آپ ایک جزو کو زیادہ emphasize کر دیں گے تو اس کا منطقی نتیجہ نکلے گا کہ دوسرا جزو پس منظر میں چلا جائے گا اور ان دونوں اجزاء کی جو مشترک تاثیر ہے وہ برقرار نہیں رہے گی. یہی حادثہ اس اُمت کے اندر بھی پیش آیا اور ’’رسول‘‘ اور ’’کتاب‘‘ پر مشتمل مرکب کے دونوں اجزاء کی اہمیت میں دو اعتبارات سے کمی بیشی کی کوشش کی گئی.
چنانچہ ایک انتہا پر منکرین حدیث اور منکرین سنت ہیں جو رسول کی اہمیت کم کر دیتے ہیں. ان کے نزدیک اصل شے کتاب ہی ہے اور رسول کی حیثیت گویا محض ڈاک کے ہرکارے کی ہے. جیسے چٹھی رسان کا کام چٹھی پہنچانا ہوتا ہے جو اصل اہمیت کی حامل ہوتی ہے‘ اسی طرح رسول کا کام اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے سو وہ اس نے پہنچا دیا‘ اب اصل شے یہ قرآن ہے‘ لہذا اصل اہمیت اسی کی ہے. یہ بات بظاہر بڑی دل کو لگتی ہے ‘ لیکن یہ درحقیقت ’’کَلمۃُ حَقٍّ اُرید بہِ الباطل‘‘ والا معاملہ ہے‘ یعنی بات تو درست ہے‘ لیکن اس سے جو نتیجہ نکالا جانا مقصود ہے وہ باطل ہے. اس لیے کہ اس طرح نبی مکرمﷺ کی ذات کی نفی کی جا رہی ہے‘ ان کی سنت کی حجیت کا انکار کیا جا رہا ہے‘ اور قرآن کی جو تشریح و توضیح آپﷺ نے اپنے قول و عمل سے فرمائی ہے اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے.
اس مسئلہ کا دوسرا پہلو بھی اسی درجے انتہا پسندانہ ہے. یہ بات ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کی ہے کہ یہ جو مرکب ہے رسول اور قرآن کا‘ عام مسلمانوں نے اس میں سے رسول کی ذات کو اتنی زیادہ اہمیت دی ہے کہ دوسرے جزو یعنی قرآن کی اہمیت کی نفی ہو گئی ہے. سمجھا یہ جاتا ہے کہ جو بھی تربیتی‘ اصلاحی اور انقلابی کام ہواوہ رسولﷺ کی صحبت ہی سے ہوا. اس تاثر سے قرآن کی تاثیر کی نفی ہوجاتی ہے. یہ بات ذرا باریک بھی ہے اور نازک اور حساس بھی‘لیکن میں چاہتا ہوں کہ ان حقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے. اس سے ایک مسلمان کو یہ مغالطہ لاحق ہو سکتا ہے کہ شاید اس طرح حضورﷺ کی توہین کی جا رہی ہے‘ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ‘ لیکن دراصل اس معاملے میں توازن کی ضرورت ہے.