اسی طرح اس کے اوپر تیسری منزل ہے‘ جس کی دیواروں پر تیسری چھت نظر آ رہی ہے. اس عمار ت کے نقشے میں ایک ترتیب اور نسبت و تناسب بھی ذہن میں قائم کر لینی چاہیے کہ بلندی کے اعتبار سے ہم اوپر سے نیچے کی طرف آئیں گے. یعنی تیسری منزل سب سے بلند ہے‘ دوسری منزل اس سے کم بلند ہے اور پہلی اس سے بھی کم. لیکن اہمیت کے اعتبار سے پہلی منزل سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے‘ کیونکہ جب تک پہلی منزل ہی قائم نہ ہو‘ دوسری منزل تعمیر نہیں ہو سکتی. اسی طرح دوسری منزل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہی تیسری منزل بن سکتی ہے. اس عمارت میں اہم ترین شے اس کی بنیاد (foundation) ہے‘ جس پر ساری عمارت کی مضبوطی کا دارومدار ہے. بنیاد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کے حامل وہ چار ستون ہیں جو اس ساری عمارت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں. اگر یہ ستون مضبوط ہوں گے تو اوپر کی پوری عمارت بھی مضبوط ہو گی اور اگر یہ کمزور ہوں گے تو اوپر کی ساری عمارت بھی کمزور رہ جائے گی.
یہ سہ منزلہ عمارت ہمارے دینی فرائض کے جامع تصور کی نقشہ کشی کر رہی ہے. اس عمارت کی بنیاد ایمان و یقین ہے‘ جس کی پختگی پر عمارت کی مضبوطی کا دارومدار ہے. یہ بنیاد جتنی مضبوط اور گہری ہوگی‘ اوپر کی عمارت اسی قدر مضبوط ہو گی. اور اگر یہ بنیاد ہی کمزور اور بودی ہے تو اوپر کی عمارت کے لیے اگرچہ بہت اچھا میٹریل استعمال کیا گیا ہو اور اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر بھی بہت توجہ دی گئی ہو‘ یہ پوری عمارت کمزور رہے گی.اس بنیاد پر جو چار ستون قائم ہیں وہ چار اہم عبادات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائیں.
اس کے بعد دوسری منزل یہ ہے کہ انسان اب اسی چیز کی دوسروں کو دعوت دے‘ اللہ کے پیغام کو عام کرے‘ اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانے کی سعی وجہد کرے‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے‘ فریضہ ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو‘ یعنی لوگوں پر حجت قائم کر دی جائے تاکہ لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکیں کہ پروردگار ‘ہم تک تو تیرا حکم پہنچا ہی نہیں‘ تیری ہدایت ہم تک کسی نے پہنچائی ہی نہیں. یہ دوسری منزل ہے.
اس عمارت کی تیسری منزل جو بلند ترین ہے‘ وہ ’’اقامت ِ دین‘‘ کی منزل ہے. اسی کے لیے ’’اسلامی انقلاب‘‘اور’’تکبیر رب‘‘ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں. یعنی اللہ کے دین کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم اور رائج کر دیا جائے اور اللہ کی کبریائی کا نظام بالفعل قائم ہو جائے‘ جیسے حدیث میں فرمایا گیا: لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ’’تاکہ اللہ ہی کا کلمہ سب سے بلند ہو جائے‘‘. (صحیح البخاری) تمام جھنڈے نیچے اور اللہ کا جھنڈا سب سے اونچا ہو جائے‘ تمام باتیں نیچی اور اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے. اللہ کا حکم ہر سطح پر جاری و ساری ہو جائے. پارلیمنٹ میں بھی اسی کا حکم چل رہا ہو اور سپریم کورٹ میں بھی اسی کے قانون کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں. غرضیکہ پورا نظام اس کے تابع ہو جائے. اس مقصد کے لیے محنت‘ کوشش‘ جدوجہد‘ ایثار‘ مال خرچ کرنا‘ جان کھپانا اور اس راہ میں جہاد و قتال کے مراحل طے کرنا‘ یہاں تک کہ اپنی جان کی بازی لگا دینا تیسری اور بلند ترین منزل ہے.
یہ سہ منزلہ عمارت ہمارے دینی فرائض کے جامع تصور کی نقشہ کشی کر رہی ہے. اس عمارت کی بنیاد ایمان و یقین ہے‘ جس کی پختگی پر عمارت کی مضبوطی کا دارومدار ہے. یہ بنیاد جتنی مضبوط اور گہری ہوگی‘ اوپر کی عمارت اسی قدر مضبوط ہو گی. اور اگر یہ بنیاد ہی کمزور اور بودی ہے تو اوپر کی عمارت کے لیے اگرچہ بہت اچھا میٹریل استعمال کیا گیا ہو اور اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر بھی بہت توجہ دی گئی ہو‘ یہ پوری عمارت کمزور رہے گی.اس بنیاد پر جو چار ستون قائم ہیں وہ چار اہم عبادات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائیں.
یعنی (i) نماز‘ (ii) روزہ‘ (iii) زکوٰۃ اور (iv) حج قرآن مجید میں نماز کے بعد ہمیشہ زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے: وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ لیکن یہاں میں نے ان کی ترتیب اس اعتبار سے ذرا بدل دی ہے کہ ان میں سے پہلی دو عبادات یعنی نماز اور روزہ تو ہر مسلمان پر فرض ہیں‘ جبکہ دوسری دو عبادات یعنی زکوٰۃ اور حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہیں بہرحال یہ چاروں عبادات ان چار ستونوں کی مانند ہیں جن پر اس عمارت کی چھتیں کھڑی ہیں. پہلی چھت کو آپ اسلام‘ اطاعت‘ تقویٰ یا عبادتِ رب کا نام دے سکتے ہیں. یعنی اس سطح پر انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دے‘ صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بنے اور اپنے مقصد ِتخلیق کو پورا کرے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذاریات) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘. یہ اطاعت‘ تقویٰ اور عبادت اپنی بلندی کو پہنچ جائیں تو یہ درجہ احسان ہے. یعنی یقین کی یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ جیسے بندہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو. تو یہ ہے اس عمارت کی پہلی چھت.
اس کے بعد دوسری منزل یہ ہے کہ انسان اب اسی چیز کی دوسروں کو دعوت دے‘ اللہ کے پیغام کو عام کرے‘ اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانے کی سعی وجہد کرے‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے‘ فریضہ ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو‘ یعنی لوگوں پر حجت قائم کر دی جائے تاکہ لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکیں کہ پروردگار ‘ہم تک تو تیرا حکم پہنچا ہی نہیں‘ تیری ہدایت ہم تک کسی نے پہنچائی ہی نہیں. یہ دوسری منزل ہے.
اس عمارت کی تیسری منزل جو بلند ترین ہے‘ وہ ’’اقامت ِ دین‘‘ کی منزل ہے. اسی کے لیے ’’اسلامی انقلاب‘‘اور’’تکبیر رب‘‘ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں. یعنی اللہ کے دین کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم اور رائج کر دیا جائے اور اللہ کی کبریائی کا نظام بالفعل قائم ہو جائے‘ جیسے حدیث میں فرمایا گیا: لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ’’تاکہ اللہ ہی کا کلمہ سب سے بلند ہو جائے‘‘. (صحیح البخاری) تمام جھنڈے نیچے اور اللہ کا جھنڈا سب سے اونچا ہو جائے‘ تمام باتیں نیچی اور اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے. اللہ کا حکم ہر سطح پر جاری و ساری ہو جائے. پارلیمنٹ میں بھی اسی کا حکم چل رہا ہو اور سپریم کورٹ میں بھی اسی کے قانون کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں. غرضیکہ پورا نظام اس کے تابع ہو جائے. اس مقصد کے لیے محنت‘ کوشش‘ جدوجہد‘ ایثار‘ مال خرچ کرنا‘ جان کھپانا اور اس راہ میں جہاد و قتال کے مراحل طے کرنا‘ یہاں تک کہ اپنی جان کی بازی لگا دینا تیسری اور بلند ترین منزل ہے.