سورۃُ البقرۃ کی آیت ۲۱ کی روشنی میں
ایک مسلمان سے دین کا اوّلین تقاضا نحمدہ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ)


آیت کا محل و مقام

اس آیۂ مبارکہ میں غور و تدبر سے پہلے ضروری ہے کہ اس مقام کو سمجھ لیا جائے جس میں یہ وارد ہوئی ہے. آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید میں سب سے پہلی سورت‘ سورۃ الفاتحہ ہے اور اس کا مقام بلاشبہ تقریباً وہی ہے جو کسی کتاب میں دیباچے یا مقدمے کا ہوتا ہے. اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دعا تلقین فرمائی ہے :

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵
’’(پروردگار!) ہمیں سیدھی راہ پر چلا!‘‘
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷
’’(اپنے) ان (بندوں) کی راہ پر جن پر تیرا انعام ہوا‘ جن پر نہ تو تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے!‘‘

اِس دعا پر سورۃ الفاتحہ کا اختتام ہوتا ہے ‘اور اس کے بعد پورا قرآن مجید گویا اس دُعا کا جواب ہے کہ یہ قرآن مجید ہی دراصل وہ صراطِ مستقیم اور سواء السبیل ہے جس کی ایک بندۂ مؤمن کو احتیاج ہے. یہی اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام ہوا‘ جو نہ گمراہ ہوئے اور نہ اُن پر اللہ کا غضب نازل ہوا. غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی دعا کا مفصل جواب پورے قرآن حکیم میں بالعموم اور پہلی چار طویل مدنی سورتوں (البقرۃ ‘ آلِ عمران‘ النساء‘ المائدۃ) میں بالخصوص پھیلا ہوا ہے. سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ شروع ہوتی ہے. اس سورۂ مبارکہ کے پہلے دو رکوعوں میں تین قسم کے انسانوں کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے.

ایک وہ جو قرآن مجید سے ہدایت حاصل کریں گے. ان کے ذکر میں وہ شرائط بیان کر دی گئی ہیں جو قرآن مجید سے صحیح استفادے کے لیے ضروری اور لازمی ہیں. دوسرے وہ جو کفر پر ضد کے ساتھ اَڑ چکے ہیں اور ان کے لیے قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے‘ اس لیے کہ اب ان میں طلبِ ہدایت ہی سرے سے باقی نہیں رہی ہے. ان کے بارے میں فرمایا گیا: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ (آیت ۷’’ اللہ نے اُن کے دلوں پر اور اُن کی قوتِ سماعت پر مہر کر دی ہے‘ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے‘‘.پھر دوسرے رکوع میں انسانوں کی تیسری قسم کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے‘ جو ان پہلی دو قسموں کے بین بین ہے. یہ وہ لوگ ہیں جو زبان سے تو اقرار کرتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے. فرمایا گیا: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے‘ جبکہ فی الواقع وہ مؤمن نہیں ہیں. دوسرا رکوع پورے کا پورا انہی لوگوں سے متعلق تفصیلات‘ ان کی کیفیات اور ان کے اوصاف پر مشتمل ہے.