اب اگلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ دعوت اصل میں ہے کیا؟ قرآن مجید کا پیغام کیاہے اور یہ کس طرف پکارتا اور کس کام کے لیے بلاتا ہے؟ اس بات کو یہاں ایک لفظ ’’اُعْبُدُوْا‘‘ میں بیان فرما دیا گیا. یعنی عبادت کرو! بندگی اختیار کرو! غلامی اور اطاعت اختیار کرو!
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾
’’اے لوگو! عبادت کرو اپنے ربّ کی جس نے تمہیں بھی پیدا کیااور اُن لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے‘تاکہ تم بچ سکو!‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی دعوت کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ’’عبادتِ ربّ‘‘ یا ’’بندگی ٔربّ‘‘. گویا قرآن مجید کی پوری دعوت کا خلاصہ یہی ہے کہ ’’اللہ کی بندگی اختیار کرو!‘‘ سورۂ ھود کا آغاز اِن الفاظ سے ہوتا ہے:
الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾
’’ا‘ ل‘ ر. یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئی ہیں (خوب جانچ لی گئی ہیں)‘ پھر ان ہی کی تفصیل و شرح کی گئی ہے ایک حکمت والی خبردار ہستی کی طرف سے.(یہ کتاب جو پیغام لے کر آئی ہے وہ یہ ہے) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو. یقینا میں تمہارے لیے اس ہستی کی طرف سے ڈر سنانے والا ‘ خوشخبری دینے والا بن کر آیا ہوں‘‘.
یعنی اگر اس دعوت سے اعراض کرو گے‘ اس کی خلاف ورزی کرو گے‘ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت اور بندگی اختیار کرو گے اور عبادت اور بندگی میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کر لو گے تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے خبردار کرنے آیا ہوں‘ اس کی پکڑ سے اور اس کے جزا و سزا کے نظام سے ڈرانے آیا ہوں. اور اگر اسی کی عبادت کو اختیار کرو گے‘ اس کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنے اوپر لازم کر لو گے اور اس کی غلامی کو اپنا شعار و وطیرہ بنا لو گے تو میں تم کو خوشخبری سنانے آیا ہوں کہ تم اُس کے انعام و اکرام سے سرفراز ہو گے اور جنت ہمیشہ کے لیے تمہارا مستقر بن جائے گی.