آیت کا آخری ٹکڑا ’’لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ عبادتِ ربّ کے انجام و مآل اور اس کے ثمرہ و نتیجہ کو بیان کر رہا ہے کہ اے بنی نوعِ انسان! تمہیں عبادتِ ربّ کی دعوت اس لیے دی جا رہی ہے ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘تاکہ تم بچ جاؤ تاکہ تم تقویٰ کی روش پر گامزن ہوسکو!تقویٰ کا اصل مفہوم ہے ’’بچ جانا‘‘ یعنی اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور نتیجتاً اس کی ناراضگی اور سزا سے بچ جانا. اسی مفہوم سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اللہ کی اطاعت میں انسان خوب مبالغہ کرے‘ آگے بڑھے‘ تفاصیل میں جا کر اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے‘ اللہ کے احکام اور رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو اور انہیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے. یہ بھی تقویٰ ہے‘ لیکن تقویٰ کا اصل بنیادی مفہوم ’’بچ جانا‘‘ ہے.
عربی لغت میں تقویٰ اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ انسان کسی خاردار جنگل میں سے گزرتے ہوئے جس طرح جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کپڑوں کو سمیٹتا ہے کہ مبادا کسی کانٹے میں نہ الجھ جائیں‘ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے انسان سے یہی طرزِ عمل مطلوب ہے. یہاں جو فرمایا گیا ہے’’لَـعَلَّـکُمْ تَـتَّـقُوْنَ‘‘ تو وہ اصل میں لغت کے اعتبار سے ہے ’’تاکہ تم بچ جاؤ‘‘ یعنی عبادتِ ربّ کی دعوت قبول کر کے ہلاکت و بربادی اور دنیا میں افراط و تفریط کے دھکوں سے بچو گے. اور اگر عبادتِ ربّ کو اپنی زندگی میں اختیار نہ کیا‘ اپنی عقل کے پیچھے لگ گئے‘ اپنے مذمومہ خیالات و نظریات کا ساتھ دیا اپنی باگ ڈور اپنے نفس کے ہاتھ میں دے دی‘ یا زمانے کے چلن کے مطابق چلنا شروع کر دیا تو دھکے کھاؤ گے‘ کبھی ایک انتہا تک جاؤ گے اور پھر وہاں سے دھکا لگے گاتو دوسری انتہا تک جاؤ گے‘ اور اس طرح گیند کی طرح اِدھر اُدھر لڑھکتے رہو گے.
حقیقت یہ ہے کہ نوعِ انسانی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ انسان دراصل افراط و تفریط کے مابین دھکے کھا رہا ہے. انسان نے جاگیردارانہ نظام سے بچ نکلنے کی کوشش میں اپنے لیے جمہوریت کا نظام تجویز کیا‘ لیکن جمہوریت کا دَور شروع ہوا تواس میں وہ خباثتیں موجود تھیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی کریہہ صورت اختیار کر لی اور یہ نظام Capitalism کی انتہا کو پہنچا. اس انتہا تک پہنچ کر انسان نے سوچا کہ وہ ایک تباہی اور ہلاکت سے دوچار ہو گیا ہے تو پھر واپس لوٹا‘ لیکن اس رجعت کے نتیجے میں دوسری انتہا تک جا پہنچا. اب اس نے اپنی عقل سے یہ نظام تجویز کیا کہ انفرادی ملکیت کو ختم کر کے تمام ذرائع و وسائل کو بالکلیہ ایک مرکزی نظام کے تحت لے آنا چاہیے. اس طرح انسان کی انفرادیت اور اس کی آزادی سلب ہو گئی اور انسانیت ختم ہو کر رہ گئی. اب سب کے سب انسان حیوانی سطح پر آ گئے اور پورا ملک ایک جیل خانہ بن گیا. یہ سب کیا ہے؟ یہ درحقیقت انسان کا دھکے کھانا ہے.
پس اگر انسان عبادتِ ربّ کی روش اختیار نہیں کرے گا اور خدا کی اطاعت اختیار کر کے اس کی مرضی کے مطابق نظام قائم نہیں کرے گا تو اسی طرح دھکے کھاتا رہے گا. ایک طرف جانے کے بعد پھر وہاں سے گھبرا کر واپس لوٹے گا ‘لیکن پھر بھی اس کا قدم سواء السبیل پر نہیں ٹکے گا اور وہ ایک دوسری انتہا تک جا پہنچے گا. وہاں پہنچ کر کوئی اور ردّعمل پیدا ہو گا تو کہیں تیسری طرف جا نکلے گا. افراط و تفریط کے ان دھکوں سے بچ نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ عبادتِ ربّ کی اس دعوت پر لبیک کہا جائے اور اللہ کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کر لیا جائے. دنیا میں یہ وہ صراطِ مستقیم‘ سواء السبیل اور قصد السبیل ہے جسے درمیانی راستہ کہا گیا ہے. یہ متوسط شاہراہ ایک ایسا عادلانہ نظام رکھتی ہے جو ہر اعتبار سے متوازن ہے‘ جس میں زندگی کے تمام تقاضوں کو اعتدال کے ساتھ سمو دیا گیا ہے. یہ اللہ کی بندگی کا راستہ ہے اور اس کی اطاعت کا نظام ہے. اسے اختیار کر کے نوعِ انسانی دنیا میں افراط و تفریط کے دھکوں سے اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے بچ سکتی ہے . تو یہ ہے تقویٰ کا اصل مفہوم!