اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے مقام اور محل کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے جس میں یہ آیت وارد ہوئی ہے ‘اور اس سلسلۂ کلام سے بھی واقفیت حاصل کر لی جائے جس کی یہ ایک اہم کڑی ہے. قرآن حکیم ایک مربوط کلام ہے اور اس کی ہر آیت سلسلۂ کلام سے ربط و تعلق رکھتی ہے. فہم قرآن کے لیے نظم آیات اور سیاق و سباق کا علم انتہائی ضروری ہے. لہذا اوّلاً ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیا بحث اور گفتگو چل رہی ہے جس کے ضمن میں یہ آیت ِمبارکہ ایک اہم کڑی کی حیثیت سے وارد ہوئی ہے. ’’دعوتِ بندگی ٔربّ‘‘ کے ذیل میں میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ سورۃ البقرۃ کے ابتدائی دو رکوعوں میں تین قسم کے انسانی کرداروں کی نقشہ کشی کی گئی ہے.
ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اس کتابِ ہدایت سے مستفید ہوتے ہیں. دوسرے وہ جو کفر و ضلالت میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں اور ان پر تعصب اور ضد کا اتنا شدید غلبہ ہو گیا ہے کہ اب انہیں کوئی دعوتِ تبشیر و انذار نفع نہیں پہنچا سکتی. اور تیسرے وہ کہ جو بین بین ہیں‘ جو اگرچہ اپنے آپ کو اہل ایمان ہی میں شمار کرتے ہیں ‘لیکن درحقیقت ان کو نفاق کا مرض لاحق ہے اور وہ اہل ایمان نہیں ہیں. تیسرے رکوع میں قرآن حکیم کی مرکزی اور آفاقی دعوت ’’دعوتِ بندگی ٔربّ‘‘ بیان کی گئی ہے‘ جس پر مفصل گفتگو ہو چکی ہے. چوتھے رکوع میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اُن کو خلافتِ ارضی عطا کیے جانے کا ذکر ہے‘ پھر حضرت آدم ؑکے سامنے سربسجود ہونے سے انکار پر ابلیس کے ساتھ پیش آنے والے معاملے اور حضرت آدم ؑو حواؑ اور ابلیسِ لعین کے ہبوطِ ارضی کا ذکر ہے. بعداَزاں پانچویں رکوع سے چودھویں رکوع تک مسلسل دس رکوع بنی اسرائیل سے خطاب پر مشتمل ہیں.
بنی اسرائیل کی حیثیت درحقیقت سابقہ اُمت ِمسلمہ کی ہے. شریعتِ محمدیؐ سے قبل کی شریعت ‘شریعت ِموسوی ؑہے اور بنی اسرائیل حاملین کتاب و شریعت تھے. اس مفصل خطاب میں اس اُمت (بنی اسرائیل) کے جو جرائم تھے‘ ان کی جو غلطیاں تھیں‘ انہوں نے جس جس طریقے سے قانونِ خداوندی کی خلاف ورزیاں کی تھیں اور جس جس طرح اپنے فرائض سے کوتاہی کا ثبوت دیا تھا انہیں اس کی ایک مسلسل فرد قراردادِ جرم سنائی گئی ہے. گویا بنی اسرائیل کے تمام جرائم کا ایک خلاصہ نکال کر اِن دس رکوعوں میں رکھ دیا گیا اور پھر اعلان کیا گیا کہ اے بنی اسرائیل! ان جرائم کی پاداش میں تم ’’اُمت ِمسلمہ‘‘ کے مقام و مرتبہ سے معزول کیے جا رہے ہو اور اب اس مقام پر تمہاری جگہ ایک نئی اُمت کو فائز کیا جا رہا ہے اور وہ ہے اُمت ِمحمدﷺ .
اس نئی اُمت کے لیے بیت اللہ الحرام ہی کو قبلہ مقرر کیا جا رہا ہے جو ہمیشہ سے تھا‘ اور وہ قبلہ جو بنی اسرائیل کی اُمت کے لیے مقرر کیا گیا تھا ‘یعنی بیت المقدس‘ اس کو منسوخ کیا جا رہا ہے. چنانچہ چودھویں رکوع میں بنی اسرائیل سے خطاب کے خاتمہ کے بعد پہلے بیت اللہ کی تاریخ بیان کی گئی اور اس کے معمارِ اوّل جناب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور جناب حضرت اسمٰعیل ذبیح اللہ علیہ السلام نے خدا کے اس گھر کی تعمیر کے وقت اس کے حضور جو دعائیں کی تھیں ان کا ذکر آیا. پھر سترہویں رکوع میں تحویل قبلہ کا حکم آیا اور اس کے ساتھ ہی آیت زیردرس میں اُمت ِمحمدؐ کے اُمت ِوسط (بہترین اُمت) کے مقام پر فائز کیے جانے کا اعلان ہوا. تحویلِ قبلہ گویا اس امر کا اعلان (declaration) ہے کہ بنی اسرائیل‘ جن کا قبلہ بیت المقدس تھا‘ آج اس مقام سے معزول کیے جاتے ہیں اور ان کی جگہ اُمت ِمحمد (ﷺ ) کو یہ منصب عطا کیا جا رہا ہے. یہ ہے وہ سلسلۂ کلام جس کے ذیل میں یہ آیت ِمبارکہ وارد ہوئی ہے.