سورۃ البقرۃ کی زیرِ مطالعہ آیت اور سورۃ الحج کی آخری آیتِ کریمہ اس بات کے لیے نصِ قطعی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد بنی نوعِ انسانی کے سامنے حق کی شہادت دینا اُمت ِ مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے اور اسی شہادتِ حق ہی کے لیے یہ اُمت برپا کی گئی ہے. اب محمدٌ رسول اللہﷺ پر ختم نبوت اور تکمیل رسالت کا بھی یہ لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کی رشد و ہدایت کا کام اُمت سرانجام دے اور اپنے قول و فعل سے گواہی دے. نبی اکرمﷺ نے یہ ذمہ داری جس طور پر اُمت کی طرف منتقل فرمائی اس کا حوالہ اسی مضمون میں گزر چکا ہے. لیکن میں چاہتا ہوں کہ خطبۂ حجۃ الوداع کے حوالے سے اس بات کی مزید وضاحت کروں کہ نبی اکرم ﷺ نے فریضۂ شہادتِ حق کی اُمت کی طرف منتقلی کا کام کس کمالِ حکمت سے انجام دیا. خطبۂ حجۃ الوداع کو بجا طور پر حقوقِ انسانی کا ایک منشور اور ہدایتِ ربانی کا ایک خلاصہ کہا جاتا ہے.
رسول اللہ ﷺ کی تیئیس سال کی مسلسل محنت ِ شاقہ اور جاں گسل مساعی کے بعد جب وہ وقت آیا کہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک فریضۂ شہادت علی الناس کی تکمیل ہو گئی اور اللہ کا دین بتمام و کمال غالب ہو گیا تو آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عظیم اجتماع سے خطاب فرمایا. اس خطاب میں آپﷺ نے انتہائی اہم ہدایات ارشاد فرمانے کے بعد مجمع سے سوال کیا: اَ لَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ کہ لوگو! میں نے خدا کا پیغام‘ اس کی ہدایت پہنچا دی کہ نہیں؟ تبلیغ کا حق ادا ہو گیا کہ نہیں؟اس پر سوالاکھ صحابہ کرام ث کا مجمع پکار اٹھا: نَشْہَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (۱) کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم گواہ ہیں کہ آپ نے حقِ تبلیغ ادا کر دیا‘ حق امانت ادا کر دیا اور حق خیر خواہی ادا کر دیا. آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ دریافت فرمائی اور صحابہ کرامؓ نے ہر بار یہی جواب دیا.
اس کے بعد نبی اکرمﷺ نے انگشت ِمبارک آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ کہ اے پروردگار! تو بھی گواہ رہ‘ میں سبکدوش ہو گیا‘ میری ذمہ داری پوری ہوئی‘ میری طرف سے فریضۂ شہادت علی الناس ادا ہو گیا اور تیرا دین بالفعل قائم ہو گیا! اس سوال و جواب کے بعد نبی اکرم ﷺ نے شہادتِ حق اور تبلیغ دین کی وہ ذمہ داری جو خاتم النبیین والمرسلین کی حیثیت سے آپؐ کے سپرد تھی ‘صحابہ کرامؓ سے بایں الفاظ مخاطب ہو کر اُمت کی طرف منتقل فرما دی کہ فَلْیُبَلِّــغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۲) کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں! اس طرح فریضۂ حق کی ادائیگی کی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ کے کاندھوں سے اُمت کے کاندھوں پر منتقل ہو گئی. اب اُمت کے ہر فرد کو انفرادی طور پر اور اُمت کو اجتماعی طور پر یہ فریضہ سرانجام دینا ہے.
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم . وسنن ابی داؤد‘ کتاب المناسک‘ باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب الخطبۃ ایام منی. وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین‘ باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاحوال.