سورۂ یوسف میں ’’دِیْنِ الْمَلِکِ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں. قرآن ہی سے ثابت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر میں بادشاہت کا نظام قائم تھا اور حضرت یوسف ؑاس نظام میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے. قحط کے دَور میں جب ان کے بھائی دوبارہ غلہ لینے مصر پہنچے اور آپؑ نے اپنے چھوٹے بھائی بن یامین کو اپنے پاس روکنا چاہا تو اس وقت مصر میں نظامِ بادشاہت کا جو قانون رائج تھا اس کے تحت ان کے لیے اپنے بھائی کو روکنا ممکن نہیں تھا. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک خصوصی تدبیر فرمائی. سورۂ یوسف میں ارشاد ہے:
کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ (آیت۷۶)
’’اس طرح ہم نے اپنی تدبیر سے یوسف ؑکی تائید کی (یعنی اس کے لیے اپنے بھائی کو روکنے کا ایک سبب بنا دیا) اُس (یوسف ؑ) کا کام یہ نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا‘اِلا یہ کہ اللہ ہی ایساچاہے!‘‘
چنانچہ دیکھ لیجیے کہ بادشاہت کے پورے نظام کو جو بادشاہ کی حاکمیت کی بنیاد پر مصر میں رائج تھا ’’دِیْنِ الْمَلِک‘‘ سے تعبیر کیا گیا.