ازروئے قرآن ’’دین‘‘ کا جو تصور ہمارے سامنے آتا ہے اس سے یہ بات خودبخود واضح ہو جاتی ہے کہ دین اپنی فطرت کے اعتبار سے اپنا غلبہ چاہتا ہے. وہ دین درحقیقت دین ہے ہی نہیں جو غالب نہ ہو. چنانچہ انگریز کے دَور میں جس دین کی اصل حکمرانی تھی وہ دین ’’انگریز‘‘ تھا. وائسرائے ہند کو تاجِ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت حاصل تھی اور مطاعِ مطلق برطانوی پارلیمان تھی. مسلمانوں کو نماز روزے کی اجازت تھی‘ لیکن دین اسلام غالب نہ تھا. اس مفہوم کو علامہ اقبال نے یوں ادا کیا ہے: ؎
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
جدید ذہن ’’دین‘‘ کو ’’مذہب‘‘ کا مترداف سمجھتا ہے اور اسے ایک نجی (پرائیویٹ) معاملہ قرار دیتا ہے. بدقسمتی سے پوری دنیا میں اکثر و بیشتر مذہب کا یہی تصور راسخ ہو گیا ہے. یہ تصور درست نہیں ہے. اسلام مذہب نہیں‘ بلکہ دین ہے. خود قرآن حکیم میں فرمایا گیا: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ (آل عمران:۱۹) ’’یقینا اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘. مذہب کے لفظ سے جو تصور اُبھرتا ہے وہ یہ ہے کہ چند مابعد الطبیعات عقائد (dogmas) کو مان لیا جائے اور ان عقائد کے تحت چند مراسم عبودیت (rituals) کی انجام دہی اور چند معاشرتی رسوم (social customs) کی پابندی کر لی جائے تو مذہب کا تقاضا پورا ہو گیا.
مذہب کا تعلق واقعتا انسان کی شخصی‘ ذاتی اور نجی زندگی ہی سے ہے. اس معنی میں اسلام مذہب ہے ہی نہیں. اور یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام کی تعبیر کے لیے لفظ ’’مذہب‘‘ نہ کہیں قرآن مجید میں وارد ہوا ہے اور نہ ہی پورے کے پورے ذخیرۂ احادیث میں کہیں استعمال ہوا ہے. بلکہ ہر جگہ اصل اصطلاح ’’دین‘‘ ہی استعمال ہوئی ہے‘ جس کا وسیع تر مفہوم و مطلب مَیں بڑے شرح وبسط کے ساتھ بیان کر چکا ہوں. ہماری بول چال کے حوالے سے آپ اسے اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھنا چاہیں تو اس کے لیے ہماری زبان کی جدید اصطلاح ’’نظامِ حیات‘‘ ہے‘ جو ادائیگی و مفہوم کے اعتبار سے لفظ ’’دین‘‘ کے قریب ترین ہے.