آگے فرمایا :
اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾
’’اللہ جسے چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اپنی طرف (یعنی اپنے دین پر) آنے کا راستہ اس پر کھول دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے.‘‘
آیتِ کریمہ کے اس ٹکڑے کے پس منظر میں اس پوری کشمکش اور پورے تصادم کی جھلک نظر آتی ہے جو اقامتِ دین کی جدوجہد کے سلسلے میں اللہ کے نبیﷺ اور مشرکین کے درمیان چل رہا ہے. مشرکین کو کسی درجے میں یہ گوارا نہیں کہ یہ مشرکانہ نظام ختم ہو جائے اور پوری کی پوری زندگی ایک اللہ کی اطاعت کے نظام کے تحت آ جائے. چنانچہ وہ مزاحمت اور مخالفت پر کمربستہ ہیں اور ان کی دن رات یہ کوشش ہے کہ دینِ حق کا یہ چراغ گُل کر دیا جائے.
ان انتہائی مایوس کن حالات میں نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس شدید مزاحمت و مخالفت اور تشدد سے دل برداشتہ نہ ہوں‘ اللہ تعالیٰ یقینا راستہ کھولے گا اور بہت سے لوگوں کو‘ جنہیں وہ چاہے گا‘ اپنے دین کی طرف کھینچ لے گا. اس کے علاوہ جن لوگوں میں ذرا بھی اِنابت ہے‘ جو حق کے طالب اور جویا ہیں‘ ان کو بھی راہِ ہدایت سے بہرہ مند فرمائے گا. اس اجتباء اور ہدایت الی اللہ کی جھلک مسلمان ان آیات کے نزول سے پہلے دیکھ چکے تھے اور اس کے بعد بھی اس کے مناظر اُن کے سامنے آتے رہے.