قرآن کے پڑھنے کے لیے خود قرآن مجید میں اگرچہ قراء ت اور تلاوت دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘لیکن احترام و تعظیم کے ساتھ اسے ایک مقدس آسمانی کتاب سمجھتے ہوئے ذہنی اور نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر کے اتباع اور پیروی کے جذبے کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے لیے اصل قرآنی اصطلاح ’’ تلاوت‘‘ ہی کی ہے. اس لیے بھی کہ یہ لفظ صرف آسمانی صحیفوں کے پڑھنے کے لیے خاص ہے‘ جبکہ قراء ت ہر چیز کے پڑھنے کے لیے عام ہے اور اس لیے بھی کہ تلاوت کا لغوی مفہوم ساتھ لگے رہنے اور پیچھے پیچھے آنے کا ہے ‘جبکہ قراء ت مجرد جمع و ضم کے لیے آتا ہے.

عام گفتگو میں ابتداء ً قراء ت کا لفظ قرآن سیکھنے اور اس کے علم کی تحصیل کے لیے استعمال ہوتا تھا اور قاری عالم قرآن کو کہا جاتا تھا ‘لیکن بعد میں یہ اصطلاح قرآن کو اہتمام اور تکلف کے ساتھ قواعد تجوید کی خصوصی رعایت اور حروف کے مخارج کی صحت کا پورا پورا لحاظ کرتے ہوئے پڑھنے کے لیے خاص ہوتی چلی گئی‘ جبکہ تلاوت کا اطلاق عام طریقے پر انابت اور خشوع وخضوع کے ساتھ حصولِ برکت و نصیحت کی غرض سے قرآن پڑھنے پر ہونے لگا.

تلاوتِ کلامِ پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کامؤثر ترین ذریعہ ہے.
قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے‘ اس لیے کہ یہ روح کے لیے بمنزلۂ غذا ہے اور جس طرح جسم انسانی اپنی بقاء و تقویت کے لیے مسلسل غذا کا 
محتاج ہے جو انسان کے جسدِ حیوانی کی طرح سب زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح روحِ انسانی جو خود آسمانی چیز ہے‘ کلامِ ربّانی کے ذریعے مسلسل تغذیہ و تقویت کی محتاج ہے!

اگر قرآن بس ایک مرتبہ پڑھ لینے کی چیز ہوتی تو کم از کم نبی اکرم کو تو اس کے بار بار پڑھنے کی قطعاً کوئی حاجت نہ تھی. لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مسلسل قرآن پڑھتے رہنے کی بار بار تاکید ہوئی. عہدِ رسالت کے بالکل ابتدائی ایام میں تو انتہائی تاکیدی حکم ہوا کہ رات کا اکثر حصہ اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہو کر ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے ہوئے بسر کرو. بعد کے ادوار میں بھی‘ خصوصاً جب مشکلات و مصائب کا زور ہوتا تھا اور صبر و استقامت کی خصوصی ضرورت ہوتی تھی‘ آنحضور کو تلاوتِ قرآن ہی کا حکم دیا جاتا تھا. چنانچہ سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا ہے :
وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾ (الکہف:۲۷)
’’اور پڑھا کر جو وحی ہوئی تجھ کو تیرے پروردگار کی کتاب سے. کوئی اس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور نہ ہی تو کہیں پا سکے گا اس کے سوا پناہ کی جگہ.‘‘

اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہوا :

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ (العنکبوت:۴۵)
’’پڑھا کر جو وحی ہوئی تیری طرف کتاب ِ الٰہی اور قائم رکھ نماز کو!‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت مسلسل کرتے رہنا ضروری ہے اور یہ مؤمن کی روح کی غذا ‘ اس کے ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کا اہم ترین ذریعہ اور مشکلات و موانع کے مقابلے کے لیے اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے.

کتابِ الٰہی کے اصل قدر دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ :

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ (البقرۃ : ۱۲۱)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت ِکریمہ کا مصداق بنائے اور ہم سب کو توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کر سکیں. لیکن اس کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کا حق ہے کیا؟ اور اس کی ادائیگی کی شرائط کیا ہیں؟

۱) تجوید

اس سلسلے میں سب سے پہلی ضروری چیز قرآن مجید کے حروف کی شناخت‘ ان کے مخارج کا صحیح علم اور رموزِ اوقافِ قرآنی کی ضروری معلومات کی تحصیل ہے‘ جسے اصطلاحاً تجوید کہتے ہیں اور جس کے بغیر قرآن مجید کی صحیح اور رواں تلاوت ممکن نہیں. آج سے تیس چالیس سال قبل تک ہر مسلمان بچے کی تعلیم کی ابتدا اسی سے ہوئی تھی اور وہ سب سے پہلے قرآن کے حروف کی پہچان اور ان کی صحیح ادائیگی کی صلاحیت حاصل کرتا تھا. افسوس کہ اِدھر ایک عرصے سے مساجد و مکاتب کی تعلیم کے زوال اور کنڈرگارٹن قسم کے مدارس کے رواج کی بدولت یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے کہ مسلمان قوم کی نوجوان نسل کی ایک عظیم اکثریت حتیٰ کہ بہت سے بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھی قرآن مجید کو ناظرہ پڑھنے پر بھی قادر نہیں. میں ایسے تمام حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی اس کمی کا احساس کریں اور جلد از جلد اسے دُور کرنے کی کوشش کریں‘ اور خواہ وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہوں قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کی صلاحیت لازماً پیدا کریں. ساتھ ہی ہمیں چاہیے کہ اپنی اولاد کے بارے میں یہ طے کر لیں کہ ان کی تعلیم کی ابتدا اسی سے ہو گی اور سب سے پہلے وہ قرآن کے حروف کی پہچان اور ان کو صحیح مخارج سے ادا کرنا سیکھیں گے. اس معاملے میں حد سے زیادہ غلو تو اگرچہ اچھا نہیں لیکن قرآن مجید کو روانی کے ساتھ صحیح اصوات و مخارج اور رموزِ اوقاف کی رعایت و لحاظ کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہونا تو ہر معمولی پڑھے لکھے انسان کے لیے بھی لازم اور قرآن مجید کے حق تلاوت کی ادائیگی کی شرطِ اوّلین ہے. 

۲) روزانہ کا معمول

قرآن مجید کے حق تلاوت کی ادائیگی کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کو زندگی کے معمولات میں مستقل طور پر شامل کیا جائے اور ہر مسلمان تلاوت کا ایک مقررہ نصاب پابندی کے ساتھ لازماً پورا کرتا رہے. مقدارِ تلاوت مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے. زیادہ سے زیادہ مقدار جس کی آنحضور نے توثیق فرمائی ہے‘ یہ ہے کہ تین دن میں قرآن ختم کیا جائے‘ یعنی دس پارے روزانہ پڑھے جائیں. اور کم سے کم مقدار‘ جس سے کم کا تصور بھی ماضی قریب تک نہ کیا جا سکتا تھا‘ یہ ہے کہ ایک پارہ روزانہ پڑھ کر ہر مہینے قرآن ختم کر لیا جائے. واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ کم از کم نصاب ہے جس سے کم پر تلاوتِ قرآن کے معمول کا اطلاق نہیں ہو سکتا. درمیانی درجہ جس پر اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم عامل تھے اور جس کا حکم بھی ایک روایت کے مطابق آنحضور نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکو دیا تھا‘ یہ ہے کہ ہر ہفتے قرآن ختم کر لیا جائے. یہی وجہ ہے کہ دورِ صحابہؓ میں قرآن کی تقسیم سورتوں کے علاوہ صرف سات احزاب میں تھی (۱جن میں سے پہلے چھ احزاب علی الترتیب تین‘ پانچ‘ سات‘ نو‘ گیارہ اور تیرہ سورتوں پر مشتمل ہیں اور ساتواں جو حزبِ مفصل کہلاتا ہے‘ بقیہ قرآن مجید پر مشتمل ہے. اس طرح ہر حزب کم و بیش چار پاروں کا بنتا ہے جن کی تلاوت انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے جو دن رات کے عشر سے بھی کم ہے. تلاوتِ قرآن مجید کا یہ نصاب ہر اُس شخض کے لیے لازمی ہے جو دینی مزاج اور مذہبی ذوق رکھتا ہو اور قرآن مجید کا حقِ تلاوت ادا کرنے کا خواہش مند ہو‘ چاہے وہ عوام میں سے ہو یا اہل علم و فکر کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو‘ اس لیے کہ جہاں تک روح کے تغذیہ و تقویت کا تعلق ہے اس کے اعتبار سے تو سب ہی اس کے محتاج ہیں. اس کے علاوہ عوام کو اس سے ذکر و موعظت حاصل ہو گی اور اہل علم و فکر حضرات اس سے اپنے علم کے لیے روشنی اور فکر کے لیے رہنمائی پائیں گے. (۲حتیٰ کہ وہ حضرات بھی جو دن رات قرآن حکیم پر تفکر و تدبر میں لگے رہتے ہوں اور قرآن کی ایک ایک سورت پر (۱) واضح رہے کہ تیس پاروں اور رکوعوں میں قرآن کی تقسیم بعد کی چیز ہے. 

(۲) واقعہ یہ ہے کہ اصحاب فکر جو خرد کی کسی گتھی کو سلجھانے میں مگن ہوں اور سخت(باقی اگلے صفحہ پر) 
برسوں غور و فکر کرتے اور اس کے مشکل مقامات پر عرصۂ دراز تک توقف کرتے ہوں‘ وہ بھی قرآن کی اس تلاوتِ مسلسل سے مستغنی نہیں ‘بلکہ ان کو اس کی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہی ضرورت ہے‘ اس لیے کہ قرآن کی تلاوتِ مسلسل سے اُن کی بہت سی مشکلیں ازخود حل ہوتی چلی جاتی ہیں اور بے شمار نئے پہلو سامنے آتے رہتے ہیں. 

۳) خوش الحانی

قرآن کی تلاوت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی حد تک بہتر سے بہتر اسلوب‘ اچھی سے اچھی آواز اور زیادہ سے زیادہ خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرے. اس لیے کہ حسن سماعت کا ذوق کم و بیش ہر انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور اچھی آواز ہر شخص کو بھاتی ہے. اسلام دین فطرت ہے اور انسان کے کسی فطری جذبے کو یکسر ختم نہیں کرتا ‘بلکہ تمام فطری داعیات کو صحیح راستوں پر ڈالتا ہے. حسن نظر اور حسن سماعت انسان کے فطری داعیات میں سے ہیں. قرآن مجید کی خوبصورت اور خوش نما کتابت سے ایک مؤمن کے حسن نظر کو حقیقی تسکین حاصل ہوتی ہے اور اس کی خوش الحانی کے ساتھ قراء ت اس کے ذوقِ سماعت کو آسودگی عطا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضور نے تاکیداً فرمایا ہے : 

زَیِّنُوا الْقُرآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ (۱
’’ قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو.‘‘

ساتھ ہی اس معاملے میں کوتاہی پر ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی کہ :

مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا (۲ (گزشتہ صفحہ سے) اُلجھن میں ہوں‘بسااوقات قرآنِ حکیم کی تلاوتِ مسلسل کے دوران یہ محسوس کریں گے کہ جیسے دفعتہ ان کی گتھی سلجھ گئی اور الجھن حل ہو گئی اور قرآن مجید کے کسی ایسے مقام سے انہیں روشنی حاصل ہو گئی جس کو اس سے قبل بے شمار مرتبہ پڑھا تھا‘ لیکن چونکہ وہ مسئلہ ذہن میں موجود نہ تھا‘ لہٰذا اس پہلو کی جانب توجہ نہ ہوئی تھی. 

(۱) عن البراء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ‘ رواہ ابوداوٗد والنسائی.
(۲) عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رواہ ابوداوٗد. 
’’جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں.‘‘
اور اس کے لیے مزید تشویق کے لیے خبر دی ہے کہ :
مَا اَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْ ءٍ مَا اَذِنَ لِنَبِیٍٍ اَنْ یَتَغَنّٰی بِالْقُرْآنِ یَجْھرُ بِہٖ (۲
’’اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ا س طرح کان نہیں لگاتا جس طرح نبی کی آواز پر لگاتا ہے‘ جبکہ وہ قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ بآواز بلند پڑھ رہا ہوتاہے.‘‘

بارہا ایسا ہوتا تھا کہ حضور راہ چلتے کسی صحابیؓ کو اچھی آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنتے تو دیر تک کھڑے ہو کر سنتے رہتے تھے اور بعد میں اس کی تحسین بھی فرماتے تھے. اس کے علاوہ آپفرمائش کر کے بھی صحابہؓ سے قرآن مجید سنا کرتے تھے. چنانچہ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کی. انہوں نے عرض کیا : ’’حضورؐ ! کیا آپ کو قرآن سناؤں؟ حالانکہ آپ ہی پر تو وہ نازل ہوا ہے!‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’ہاں میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے سنوں!‘‘ چنانچہ حضرت ابن مسعودؓ نے آپ کو قرآن سنایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اسی طرح ایک بار آپ نے ایک صحابی (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) کوحسن صوت کے ساتھ قرآن پڑھتے سنا اور ان الفاظ میں تحسین فرمائی کہ تمہیں مزامیر آلِ داؤد (علیہ السلام) میں سے حصہ ملا ہے.

اس معاملے میں بھی غلو اگرچہ مضر ہے‘ خصوصاً جب اس میں تصنع یا ریا شامل ہوجائیں اور اس کی صورت ایک پیشے کی بن جائے تب تو یہ مہلکات میں سے شمار ہونے والی چیز بن جاتی ہے‘ لیکن ہر شخص کو اپنے ذوقِ حسن سماعت کی تسکین بہرحال قرآن کی تلاوت و سماعت ہی میں تلاش کرنی چاہیے‘ اور خود اپنے حد ِامکان تک اچھے سے اچھے طریقے پر تلاوت کی سعی کرنی چاہیے.

۴) آدابِ ظاہری و باطنی

قرآن کے حق تلاوت کی ادائیگی کی شرائط میں سے تلاوت کے کچھ ظاہری اور (۲) عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ‘ رواہ ابوداوٗد. باطنی آداب بھی ہیں. یعنی یہ کہ انسان باوضو ہو‘ قبلہ رُخ بیٹھ کر تلاوت کرے‘ اور اس کی ابتدا تعو ّذ سے کرے پھر یہ کہ اس کا دل کلام اور صاحب کلام دونوں کی عظمت سے معمور ہو. حضورِ قلب‘ خشوع و خضوع اور انابت و رجوع الی اللہ کے ساتھ تلاوت کرے‘ اور خالص طلب ہدایت کی نیت اور قرآن حکیم کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے عزمِ مصمم کے ساتھ قرآن کو پڑھے‘ اور مسلسل تذکر و تدبر اور تفہم و تفکر کرتا رہے اور اپنے خود ساختہ خیالات و نظریات کی سند قرآن سے حاصل کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ حتی الامکان معروضی طور پر اس سے ہدایت اخذ کرنے کے لیے پڑھے. اس لیے کہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘تلاوت کا لغوی مفہوم ’’پیچھے لگنے‘‘ اور ’’ساتھ رہنے‘‘ کا ہے ‘اور نفس میں حوالگی و سپردگی کی کیفیت تلاوت کا اصل جوہر ہے. 

۵) ترتیل

تلاوت قرآن پاک کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ نماز (خصوصاً تہجد) میں اپنے ربّ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو کر انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ متذکرہ بالا تمام شرائط کی پابندی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور توقف کرتے ہوئے قرآن پڑھا جائے جس سے قلب پر اثرات مترتب ہوتے چلے جائیں. قرآن کی اصطلاح میں اس قسم کی تلاوت کا نام ترتیل ہے اور نبی اکرم  کو جو احکام بالکل ابتدائی عہد رسالت میں ملے ان میں سے غالباً اہم ترین حکم یہی تھا کہ : 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزمل:۱_۴)

’’اے مزمل! رات کو کھڑے رہا کرو سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے‘ (یعنی) آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زائد. اور قرآن کو پڑھا کرو ٹھہر ٹھہر کر.‘‘

قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے میں ایک گونہ مماثلت اس کے طریق نزول سے بھی پیدا ہو جاتی ہے‘ اس لیے کہ قرآن خود آنحضور  پر 
’’جُـمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘‘ یعنی یک بارگی نہیں اترا‘ بلکہ تھوڑا تھوڑا اترا ہے. اور سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ اعتراض نقل کرکے کہ آخر پورا قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہو جاتا‘ جواباً آنحضور سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ:

کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ﴿۳۲﴾ (الفرقان:۳۲)
’’اسی طرح (اُتارا) تاکہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا فرمائیں‘ چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کوٹھہر ٹھہر کر.‘‘

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ترتیل تثبیت قلبی کا مؤثر ذریعہ ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے سے قلب انسانی کو زیادہ سے زیادہ فیض و افادہ حاصل ہوتا ہے. حتیٰ کہ شدتِ تاثر سے قلب پر گریہ طاری ہو جاتا ہے. چنانچہ علامہ ابنِ عربی صاحب ’’احکام القرآن‘‘ نے ترتیل کی تفسیر میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو قرآن مجید اس طرح پڑھ رہا تھا کہ ایک ایک آیت پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا. اس پر حضور نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قولِ مبارک 
وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا نہیں سنا؟ دیکھ لو یہ ہے ترتیل!‘‘ قرآن مجید کو بطریق ترتیل تلاوت کرنے ہی کا حکم ہے آنحضور کے اس قولِ مبارک میں کہ :

اُتْلُوا الْقُرْآنَ وَابْکُوْا (ابن ماجہ)
’’قرآن کو پڑھو اور روؤ!‘‘

چنانچہ خود نبی اکرم کی صلوٰۃِ لیل کی یہ کیفیت روایات میں بیان ہوئی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے جوشِ گریہ سے آپ کے سینۂ مبارک سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے کوئی ہانڈی چولہے پر پک رہی ہو. 

۶) حفظ

اس ترتیل کی شرط لازم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کیا جائے. بدقسمتی سے اس کا ذوق بھی ہمارے یہاں کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا ہے. ایک تو حفظِ قرآن کی صرف یہ صورت مروّج رہ گئی ہے کہ پورا کلامِ پاک حفظ کیا جائے اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ بچپن ہی کا زمانہ موزوں ہو سکتا ہے‘ جبکہ کلام پاک کا مفہوم سمجھنے کا کوئی سوال ہی سرے سے پیدا نہیں ہوتا. اگرچہ اس کا ذوق بھی اب کم ہورہا ہے اور الاّماشاءَ اللہ حفظ قرآن صرف غرباء کے ایک طبقے کے لیے ایک پیشہ بن کر رہ گیا ہے.

حالانکہ بالکل ماضی قریب میں یہ حال تھا کہ شرفاء اور اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں حفظ قرآن کا چرچا تھا اور ہندوستان کے بعض شہر تو ایسے بھی تھے جن میں اکثر گھروں میں کئی کئی حافظ قرآن ہوتے تھے اور وہ گھرانا نہایت منحوس سمجھا جاتا تھا جس میں کوئی ایک شخص بھی حافظ نہ ہو. حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نہایت مبارک ہے اور حفاظت قرآن کی خدائی تدابیر میں سے ہے اور اس کی جانب بھی ازسرِنو توجہ و انہماک کی شدید ضرورت ہے‘ لیکن میں یہاں بالخصوص جس حفظ کا تذکرہ کر رہا ہوں وہ حفظ وہ ہے جو ترتیل قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے ہر مسلمان پر واجب ہے‘ یعنی یہ کہ ہر مسلمان مسلسل زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے کے لیے کوشاں رہے تاکہ اس قابل ہو سکے کہ رات کو اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہو کر اس کا کلام اسے سنا سکے! افسوس ہے کہ اس کا ذوق بالکل ہی ختم ہو گیا ہے حتیٰ کہ علماء تک اس سے مستغنی ہو گئے ہیں‘ اور ائمہ مساجد جنہیں قرآن مجید سے سب سے زیادہ شغف ہونا چاہیے ان کا حال بھی یہ ہو گیا ہے کہ بس جتنا قرآن کبھی یاد کر لیا تھا اسی پر قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ادل بدل کر انہی حصوں کو نمازوں میں پڑھتے رہتے ہیں.

اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے کہ ہر شخص قرآن کے اس حصے کو جو اُسے یاد ہو‘ اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ سمجھے اور اس میں مسلسل اضافے کے لیے کوشاں رہے‘ تاکہ تلاوتِ قرآن کی سب سے اعلیٰ صورت یعنی ترتیل سے زیادہ سے زیادہ حظ حاصل کر سکے اور اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا عمدہ سے عمدہ صورت میں فراہم کر سکے!