ہمارا پانچواںمحاذ جس پر ہمیں جہاد بالقرآن کرنا ہے‘ وہ فرقہ واریت ‘ تشتت‘ انتشار اور باہمی اختلافات کا محاذ ہے. یہ عناصر وحدت ِ اُمت کو صدیوں سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں. انہی کے باعث دولت ِ عباسیہ ختم ہوئی اور سقوطِ بغداد کا سانحہ پیش آیا. انہی کی وجہ سے بغداد کے گلی کوچوں میں اہل سنت کے دو گروہ دست بگریباں ہوئے‘ تلواریں بے نیام ہوئیں اور خون کی ندیاں بہائی گئیں. سلطنت ِ ہسپانیہ کے زوال و انحطاط اور پھر کامل سقوط کے عوامل میں جہاں قبائلی عصبیتیں کار فرما تھیں وہاں اس تباہی میں فقہی و کلامی اختلافات کا عمل دخل بھی تھا. اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ یہ اختلافات سلطنت ِ خداداد پاکستان کے لیے بھی روز بروز زیادہ سے زیادہ نازک اور خطرناک صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں.
ماضی قریب میں بادشاہی مسجد کے ایک مبینہ واقعہ بلکہ محض افواہ پر معرکہ آرائی کی جو تکلیف دہ صورتِ حال بنی تھی‘ یہ چنگاری جنگل کی آگ بن سکتی تھی اور ہم میں سے ہر شخص اپنے طور پر اس کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ آگ ہمارے لیے کتنی ہولناک اور تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی. فرقہ واریت کا بارود اب بھی ہمارے یہاںموجود ہے‘ کوئی شر پسند گروہ اس کو کسی وقت بھی دیا سلائی دکھا سکتاہے. اس نازک صورت حال میں ہماری ملی و سیاسی زندگی اورہمارے وطن کے مستقبل کے لیے جو خطرات مضمر ہیں ‘ میں اس وقت ان کے بارے میں بات نہیں کر رہا. پھر یہ کہ فی الوقت صورتِ حال جس ہلاکت خیزی کے دہانے تک پہنچی ہوئی ہے اس کے اسباب و علل کے متعلق بھی میں اس وقت کچھ عرض نہیں کروں گا. اِس وقت مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اس کا علاج صرف تشویش ظاہر کرنے سے تو نہیں ہو جائے گا‘ محض پریشان ہونے سے توکوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا! اس کے لیے مثبت کام کرنا ہوگا. اس کے لیے بھی جہاد کرنا ہوگا اور اس جہاد کے لیے بھی قرآن ہی واحد تلوار ہے.
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!
فرقہ واریت کے اس عفریت کا سر قلم کرنے ‘ اس کا قلع قمع کرنے اوراس کو نیست و نابود کرنے کے لیے واحد تلوار صرف قرآن ہے. یہی سبق ہم کو سورۂ آل عمران کی آیت۱۰۳ کے ابتدائی الفاظ میں ملتا ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ تمام مفسرین اور تمام علماء عظام کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہاں حبل اللہ سے مراد قرآن مجید ہے اور یہ رائے متعدد احادیث ِصحیحہ کی روشنی میں قائم کی گئی ہے. آیت ِ مبارکہ کے اس حصے سے علامہ اقبال مرحوم نے جو کچھ اخذ کیا ہے وہ میں آگے بیان کروں گا. اس وقت میں اکبر الٰہ آبادی مرحوم کا ایک شعر سناتا ہوں جو ہمارے موجودہ حالات پر منطبق ہوتا ہے. فرماتے ہیں: ؏
صوم ہے ایمان سے‘ ایمان غائب صوم گم
یعنی آدمی روزہ تو ایمان ہی کے تقاضے کے تحت رکھ سکتا ہے. (خاص طور پر موسمِ گرما کے روزے )جب ایمان ہی نہیں رہا تو صوم تو آپ سے آپ گیا! پھر اس کا التزام و اہتمام کیسے ہوگا؟ اگلا مصرع نہایت قابل توجہ ہے: ؏
قوم ہے قرآن سے‘ قرآن رخصت قوم گم
مسلمانوں کی ملّی اور قومی شیرازہ بندی قرآن سے ہے. قرآن درمیان سے ہٹ گیا یا آپ کی توجہ قرآن سے ہٹ گئی تو نتیجہ ایک ہی ہوا‘ یعنی وحدت ِ ملّی کا شیرازہ بکھر گیا. اسے اقبال نے اس طرح تعبیر کیا ہے ؏
یا مسلماںمُرد یا قرآں بمرد!
یعنی یا مسلمان مر چکا ہے یا (معاذ اللہ) قرآن مر چکا ہے. اقبال دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن تو زندہ و پائندہ ہے‘ لیکن مسلمانوں کی توجہ مر چکی ہے. قرآن سے ان کا شغف و التفات ختم ہو چکا ہے. چنانچہ علامہ مرحوم نے مسلمانوں کو چونکانے کی غرض سے یہ پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے. عظمت ِ قرآن کے بیان میں علامہ اقبال کے یہ اشعار بھی انتہائی قابل توجہ ہیں: ؎
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں زندہ و پائندہ و گویا ست ایں
صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست عصر ہا پیچیدہ در آناتِ او ست
’’اس قرآن کے بارے میں جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اُسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں! حقیقت یہ ہے کہ یہ محض کتاب نہیں ہے‘ کچھ اور ہی شے ہے! یہ ذاتِ حق سبحانہ و تعالیٰ کا کلام ہے لہذا اُسی کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی.اور یہ کتاب جیتی جاگتی اور بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی ہے. اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہاں آباد ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود ہیں.‘‘
لیکن مسلمانوں کا اس کتابِ الٰہی ‘اس’ ’ہدًی للنّاس‘ ‘اس فرقانِ حمید ‘ اس نسخہ ٔشفا کے ساتھ کیا سلوک و رویہ باقی رہ گیا ہے ‘اس کا نوحہ اقبال اس طرح کرتے ہیں : ؎
بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست! کہ از یٰسین او آساں بمیری!
’’لیکن افسوس کہ اے مسلمان! تجھے اس قرآن کی آیات سے اب اس کے سوااورکوئی سروکار نہیں رہا کہ اس کی سورۂ یٰسین کے ذریعے موت کو آسان کرلے.‘‘
علامہ کے یہ اشعار بھی میں بارہا اپنی تقریر و تحریر میں پیش کر چکا ہوں جن میں انہوں نے بڑی دل سوزی کے ساتھ ہماری ذلت و خواری‘ ہمارے انتشار‘ ہماری آپس کی چپقلش اور تنازعات کی تشخیص بھی کی ہے اور علاج بھی تجویز کیا ہے : ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ در بغل داری کتابِ زندۂ
حضرت شیخ الہندؒ نے اسارتِ مالٹا سے رہائی کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کی دینی و دُنیوی تباہی و بربادی کا جہاں ایک سبب ’’قرآن کو چھوڑ دینا‘‘ قرار دیا تھا وہاں دوسرا سبب ‘’’آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ‘‘ بھی بیان کیا تھا. عوامی درسِ قرآن کے حلقے قائم کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ آپ نے اس ارادہ کا اظہار بھی کیا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو ختم کرنے کے کام میں بھی وہ اپنی باقی زندگی صرف کریں گے. مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ جو اِس روایت کے راوی ہیں‘ انہوں نے اس پر اس طرح تبصرہ فرمایا تھا کہ ’’حضرتؒ نے ہمارے زوال وانحطاط کے جو دو سبب بیان کیے تھے‘ غور کیا جائے تو یہ دونوں ایک ہی ہیں. ہمارے باہمی اختلافات اورباہمی جنگ و جدال کا سبب بھی قرآن کو ترک کر دینا ہی ہے‘‘. ان دو اکابر کا اس پرکامل اتفاق نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح اور ان کے باہمی اختلاف کو ختم یا کم‘ازکم ان کی شدت کو کم کرنے اور ان میں اعتدال پیدا کرنے کا واحد ذریعہ اعتصام بالقرآن ہے.
علامہ اقبال نے اسے جس پُر شکوہ انداز میں ادا کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے. فرماتے ہیں ؎
ازیک آئینی مسلماں زندہ است پیکر ملت ز قرآں زندہ است
ماہمہ خاک و دل آگاہ اوست اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست
’’ وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اورملت کے جسد ِظاہری میں روحِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے‘ ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا یہ وجود مٹی ہے! ہاں اس میں دل ہے‘ جس کی دھڑکن اس کو زندہ رکھے ہوئے ہے. (ہمارا قلب ِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے.) اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامو کہ یہی حبل اللہ یعنی اللہ کی مضبوط رسّی ہے.‘‘
اور فرماتے ہیں : ؎
چوں گہر در رشتۂ او سفتہ شو ورنہ مانند غبار آشفتہ شو
’’اے ملت ِاسلامی! اب بھی وقت ہے کہ تو اپنے آپ کو تسبیح کے موتیوں کی طرح قرآن کے رشتے میں بیندھ لے اور پرو لے ‘ورنہ پھر اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ خاک اور دُھول کی مانند پریشان و منتشر اور ذلیل و خوار رہ!‘‘ میرا تأ ثر یہ ہے اور میں اسے تقریر میں بھی اور تحریر میں بھی برملا ظاہر کرتا رہا ہوں کہ ماضی قریب میں قرآن کی عظمت اور مرتبہ و مقام کا انکشاف جس شدت کے ساتھ علامہ اقبال پر ہوا شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو. علامہ مرحوم نے اپنی شاعری بالخصوص فارسی شاعری میں نہایت دل گداز‘ مؤثر اور تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جانے والے مختلف اسالیب سے ملت ِ اسلامیہ کو جھنجھوڑا ہے اور اسے دعوت دی ہے کہ دین و دنیا کی فوز وفلاح چاہتے ہو تو قرآن کو تھامو. یہی تمہارے اتحاد اور تمہارے عروج کا واحد ذریعہ ہے. ان کا یہ شعر آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن!
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن!
’’تو اگر مسلمان ہو کر جینے کا خواہش مند ہے ‘ اس کی تمنا اور آرزو رکھتا ہے تو اچھی طرح جان لے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی حیات کی بنیاد قرآن پر قائم کرے.‘‘