حضرت سعدؓ بن معاذ ایک ڈولی میں بنوقریظہ کی بستی میں لائے گئے. حضرت سعدؓ نے جو فیصلہ کیا وہ عین یہود کی شریعت کے مطابق تھا‘ کہ بنوقریظہ کے تمام جنگ کے قابل مردوں کو قتل کر دیا جائے‘عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں. اس فیصلے میں یہ مصلحت بھی ہو گی کہ حضرت سعدؓ اس غزوہ میں دیکھ چکے تھے کہ بنوقینقاع اور بنو نضیر کو مدینہ سے نکل جانے دیا گیا تو وہ گرد وپیش کے سارے قبائل کو بھڑکا کر قریش کی سرکردگی میں تقریباً بارہ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے تھے. چنانچہ حیاتِ طیبہ کے دوران اجتماعی قتل اور سخت ترین سزا کا یہی ایک واقعہ ہوا ہے جو بنوقریظہ کے ساتھ ہوا.
اگر یہ نبی اکرمﷺ کو حَکَم تسلیم کر لیتے جو انتہائی رؤف اور رحیم تھے تو وہ شاید اس انجامِ بد سے بچ جاتے‘ لیکن مشیتِ الٰہی یہی تھی ‘اس لئے ان کی مت ماری گئی اور انہوں نے حضورﷺ پر عدم اعتماد کیا جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ حضرت سعدؓ بن معاذ نے یہ فیصلہ عین تورات کے مطابق کیا تھا. بنوقریظہ اسی انجام کے مستوجب تھے‘کیونکہ انہوں نے اس وقت جبکہ مسلمانوں کے لئے انتہائی کٹھن وقت تھا‘ عقب سے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا ارادہ کیا تھا. چنانچہ جب مسلمان بنوقریظہ کی گڑھیوں میں داخل ہوئے تو ان کو پتہ چلا کہ جنگ احزاب میں حصہ لینے کے لئے ان غداروں نے ۱۵ سو تلواریں‘ تین سو زرہیں‘ دو ہزار نیزے اور ۱۵ سو ڈھالیں جمع کر رکھی تھیں. اگر اللہ تعالیٰ کی تائید شاملِ حال نہ ہوتی تو ایک طرف مشرکین یکبارگی خندق عبور کر کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے اور دوسری طرف یہ سارا جنگی سامان عین عقب سے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے بنو قریظہ استعمال کرتے.