صیہونیت اور Neo-cons کا پانچ نکاتی ایجنڈا

یہاں یہ بات ذرا سمجھنے کی ہے کہ مغرب میں ایک اقلیت (minority) ہے یہودیوں کی جن کے پنجے میں اس وقت عیسائی ہیں‘ خاص طور پر عیسائیت کا پروٹسٹنٹ فرقہ ان کے شکنجے میں ہے.آپ نے ایک لفظ سنا ہو گا WASP . عام معنوں میں WASP کہتے ہیں ’بھڑ‘ کو‘ جب وہ کاٹ لیتی ہے تو جسم سوج جاتا ہے ‘ لیکن WASP اصل میں مخفف ہے White Anglo Saxon Protestant کا. یہ آلہ کار ہیں یہودیوں کے اور یہ Christian Zionists ہیں ‘جبکہ ایک یہودی Zionist ہیں . ان کے پیش نظر ایک پانچ نکاتی ایجنڈا ہے جس کی تکمیل میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں:

(i)آرمیگاڈان(بہت بڑی جنگ):

بائبل کا آخری باب ’’مکاشفاتِ یوحنا‘‘ہے‘جس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک حواری ’’یوحنا‘‘ کی پیشین گوئیاں ہیں.ان میں سے ایک پیشین گوئی یہ ہے کہ اس دنیاکے خاتمہ سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہوگی.اُس نے جگہ کی نشاندہی بھی کی ہے کہ یہ جنگ وہا ں ہو گی جہاں لبنان‘فلسطین اور شام ملتے ہیں.اسی مقام پر ایک وادی افیق ہے جو مسقط سے ’’لد‘‘ (Lydda) جاتی ہے اور یہ اسرائیل کا سب سے بڑا ائیر بیس ہے.رسول اللہ نے اس جنگ کو اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی ( عظیم ترین جنگ) کا نام دیا ہے اوریہ بھی فرمایا ہے کہ یہ جنگ زیادہ دُور نہیں ہے. 

(ii) گریٹر اسرائیل کا قیام:

حدیث ِنبوی کی رو سے اس آخری صلیبی جنگ میں تمام ممالک مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور عظیم تر اسرائیل قائم ہو جائے گا ‘جس کا نقشہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر آویزاں ہے.یہودیوں کے اس نقشے کے مطابق پورا فلسطین‘ پورا شام‘ عراق (کم از کم دجلہ تک) ‘ مصر کا انتہائی زرخیز دریائے نیل کے ڈیلٹا کا علاقہ ‘ ترکی کا جنوبی حصہ اورسعودی عرب کا بھی شمالی حصہ بشمول مدینہ‘یہ سب گریٹر اسرائیل کا حصہ بنیں گے.

(iii) مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو گرانا:

صخرہ کے معنی چٹان کے ہیں .سفر معراج میں حضور اس چٹان سے براق پر بیٹھے تھے اور یہاں سے اپنا آسمانی سفر شروع کیا تھا.تیرہ سو سال پہلے اُموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس جگہ پر گنبد بنا دیا تھا.تصاویرمیں اور ٹی وی پر جو سنہرے رنگ کا گنبد دکھایا جاتا ہے ‘وہی قبۃ الصخرۃ (Dome of the Rock) ہے.ان کے ایجنڈے میں مسجد اقصی اور اس قبۃ الصخرۃ کو گرانا بھی شامل ہے.

(iv) ہیکل سلیمانی کی تعمیر:

مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ان کے اس ایجنڈے کا ناگزیر حصہ ہے. ہیکل سلیمانی کی تاریخ یہ ہے کہ اسے ایک ہزار سا ل قبل مسیح تعمیر کیا گیا‘۵۸۶ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اسے تباہ و برباد کر دیا‘ تقریباً سو سال بعد اسے دوبارہ بنایا گیا‘پھرٹائٹس رومی نے ۷۰ء میں اسے دوبارہ گرادیا. اُس وقت تک رومی عیسائی نہیں بلکہ بت پرست تھے. یہ ہیکل سلیمانی اب تک گرا پڑا ہے.اس کی صرف ایک دیوار باقی ہے جسے دیوارِ گریہ (Wailing Wall) کہتے ہیں. یہودی وہاں جاکر ماتم کرتے ہیں. 

(v)عالمی حکومت کا قیام:

WASP کے منصوبے کے مطابق ہیکل سلیمانی (3rd Temple) کی تعمیر کے بعدیہاں حضرت داؤد علیہ السلام کا تخت لا کر رکھا جائے گا. اس کی تفصیل Philadelphia Trumpet میں شائع ہوئی تھی. حضرت داؤ د علیہ السلام کی تاج پوشی ایک پتھر پر بٹھا کر کی گئی تھی‘پھر اسی پتھر پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تاج پوشی کی گئی اور ا س کے بعد جتنے بھی یہودی بادشاہ ہوئے‘ ان سب کی تاج پوشی بھی اسی پتھر پر بٹھا کر کی جاتی رہی.جب ٹائٹس رومی نے ۷۰ء میں ہیکل سلیمانی کو گرایا اُس وقت یہ پتھر یروشلم میں موجود تھا.وہ یہودیوں کے اس مقدس پتھر کو اپنے ساتھ روم لے گیا‘وہاں سے یہ آ ئرلینڈ‘سکاٹ لینڈ سے ہوتا ہوا انگلینڈ آگیااور انگلینڈ کی پارلیمنٹ سے ملحقہ چرچ ’’ویسٹ منسٹر ایبے‘‘ میں اسے ایک کرسی میں نصب کر دیا گیا .اب انگلینڈ کے ہر بادشاہ کی تاج پوشی اسی مقدس پتھر والی کرسی پر بٹھا کرکی جاتی ہے.ان کے ایجنڈے کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد وہ پتھر یہاں لا کر رکھا جائے گا اور ایک گلوبل حکومت قائم ہوجائے گی.

یہاں تک تو عیسائیوں او ر یہودیوں میں اتفاق ہے ‘ا س سے آگے تھوڑا اختلاف ہے.عیسائی کہتے ہیں ہمارے مسیحا یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام آئیں گے اور اس تخت پر بیٹھ کر حکومت کریں گے.جبکہ یہودی کہتے ہیں کہ ہمارا میسایاح (Messiah) آئے گا اور اس تخت پر بیٹھ کر حکومت کرے گا.