یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ جامع الصفات انسان تھے‘انؓ کی شخصیت میں ’’Ambivert‘‘ کی تمام خصوصیات موجود تھیں اور اگرچہ آپؓ اپنی ذاتی حیثیت میں خلیفۂ راشد تھے لیکن یہ ایک امرِ واقعہ ہے کہ آپؓ کے عہدِ خلافت میں باہمی اختلاف رہا. امت آپؓ کی خلافت پر مجتمع نہ ہو سکی. باہمی خانہ جنگی رہی. جنگِ جمل‘جنگِ صفین اور جنگِ نہروان جیسے خونیں معرکے ہوئے. بڑے بڑے فتنے اس دور میں کھڑے ہو گئے تھے. حضرت علیؓ نے ان فتنوں پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی لیکن سبائی فتنہ کے شجرِ خبیثہ کی جڑیں زمین میں اتنی گہری اُتر چکی تھیں کہ انتہائی کوشش کے باوجود حضرت علیؓ کے لیے ان پر تنہا قابو پانا ممکن نہ ہو سکا. اگر اس وقت مخلص‘بااثر اور صائب الرائے حضرات ایک بنیانِ مرصوص بن جاتے اور حضرت علیؓ کی پشت پناہی کرتے تو شاید حالات سدھر جاتے. لیکن سبائی سازش نے غلط فہمیوں کا اتنا گھنا جنگل کھڑا کر دیا تھا کہ اس کا صاف ہونا ممکن نہ ہوا. اس کے نتیجے میں اُمت کے اندر فرقہ آرائی اور گروہ بندی کی ایسی گرہ لگ گئی ہے جونہ اُس وقت کھل سکی اور نہ شاید قیامت تک کسی کے ناخن تدبیر سے کھل سکے. لیکن اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ‘ثم معاذ اللہ اس کا کوئی الزام حضرت علیؓ کی ذات پر نہیں ہے. اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ انؓ ‘کی کوتاہی تھی یا انؓ ‘کی عدم صلاحیت تھی‘یا اہلیت کی کمی تھی تو دراصل وہ تاریخ کو نہیں جانتا‘وہ حقائق کا فہم نہیں رکھتا.

oo اقول قولی ھٰذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo