اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ ’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ (یعنی قرآنِ حکیم) اور دین حق دے کر تاکہ غالب کر دے اس کو کل کے کل دین پر (یا پورے نظامِ زندگی پر) خواہ مشرکوں کو یہ بات ناپسند ہو.‘‘

اس آیت میں نبی اکرم  کا مقصد ِبعثت بیان کر دیا گیا ہے. یہ حقیقت بڑی 
اہم ہے کہ جب تک نبی اکرم  کے مقصد بعثت کا صحیح صحیح فہم حاصل نہ ہو‘ سیرۃ النبی سمجھ میں نہیں آ سکتی‘ نہ ہی قرآن حکیم کا گہرا فہم و ادراک حاصل ہو سکتا ہے. یہ بات میں دراصل امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے حوالے سے کہہ رہا ہوں‘ جنہوں نے اس آیۂ مبارکہ کو پورے قرآن کا عمود قرار دیا ہے.

ظاہر ہے کہ کسی بھی بڑی شخصیت کے کارناموں اور کاوشوں کی قدر و قیمت معین کرنے اور ان کے اثرات کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کا مقصد معین ہو جائے. تب ہی تو آپ تجزیہ کر سکیں گے کہ وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب رہی اور کتنی ناکام. نیز یہ کہ اس نے اپنا ہدف کس طور سے اور کس حد تک حاصل کر لیا.
نبی اکرم  کا مقصدبعثت صرف تبلیغ نہیں ہے بلکہ غلبہ ٔدین ِحق ہے. ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے. اگر فقط تبلیغ کرنی ہوتی تو شاید حضور  کبھی ہاتھ میں تلوار نہ لیتے. لیکن غلبہ ٔدین حق کے لیے ہاتھ میں تلوار لیے بغیر چارہ نہیں. اسی حقیقت کے منکشف ہونے سے تو ساری بات کھلتی ہے. تبلیغ تو بدھ مت کے بھکشو بھی کرتے ہیں. آخر یہ عیسائی مشنری والے بھی تو تبلیغ میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں. مگر یہ تبلیغ جس سطح پر کر رہے ہیں اس میں کسی تصادم کی ضرورت نہیں پیش آتی‘ اس لیے کہ محض تبلیغ کے کچھ اور تقاضے ہوتے ہیں‘ جب کہ غلبہ ٔدین کے کچھ اور تقاضے ہیں. نبی اکرم کا مقصد ِبعثت ہی غلبہ ٔدین حق ہے. اسی لیے فرمادیا کہ یہ مشرکوں کو بہت ہی ناگوار ہو گا. یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ مشرک ہے کون! ہر وہ شخص یا ادارہ جو دین ِحق کے مقابلے میں کوئی اور نظام آپ کے سامنے رکھے وہ مشرک ہے. مگر ہم نے شرک کو صرف چند عقائد تک محدود کر دیا ہے. بقول علامہ اقبال: ؎

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!