سورۃالصف کی مذکورہ بالا آیات میں دو وعدے مذکور ہیں‘ جب کہ سورۃ النور کی آیت ۵۵ میں تین وعدے آئے ہیں‘ مگر سورۃالنور میں جن وعدوں کا ذکر ہے ان کا تعلق دنیا سے ہے‘ یعنی ’’اے مسلمانو! ہم تمہیں خلافت عطا کریں گے‘ دنیا میں تمہارا دین غالب ہو جائے گا اور دنیا میں تمہاری خوف کی کیفیت امن سے بدل دی جائے گی.‘‘ جب کہ سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیات میں پہلے آخرت کا نتیجہ بیان کیا ہے‘ یعنی ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر حقیقی ایمان رکھو گے اور جہاد فی سبیل اللہ پر کاربند رہو گے تو وہ تمہارے گناہ بخش دے گا‘ تمہیں جنتوں میں داخل کرے گا اور ہمیشہ ہمیش کے باغات میں تمہیں نہایت پاکیزہ مسکن عطا کرے گا.‘‘ اور اسی اخروی نتیجے کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ اس طرح ہمارے معیارِ خیر و شر (value structure) کو بھی درست کر دیا گیا ہے کہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں‘آخرت کی ہے. اسی لیے آگے چل کر تقابل (contrast) میں فرمایا: وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ ’’ایک اور شے جو تمہیں پسند ہے.‘‘

امام رازی نے تفسیر کبیر میں بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ ’’یہاں درحقیقت اس بات کی مذمت کی گئی ہے کہ یہ تمہاری بشریت ہے جس کی وجہ سے تم دنیا کی فتح و کامیابی کو اہمیت دیتے ہو‘ مگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے. اگر اہمیت ہوتی تو (اہل ایمان کو) آنِ واحد میں فتح عطا کر دیتا. اللہ کی نگاہ میں تو تمہاری آزمائش اور امتحان کو اہمیت حاصل ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں پورا اترتا ہے. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی آنکھوں سے فتح مکہ کا منظر نہیں دیکھ سکے تو کیا وہ ناکام ہو گئے؟ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ تو مکہ میں ہی شہید ہو گئے‘ ان کو مدینہ کا دارالامن دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا. لہذا اصل کامیابی ثابت قدمی ہے. ایمان و عمل صالح کا حق ادا کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر دینا ہی فوزِ عظیم ہے. 

اُخروی کامیابی کی اہمیت واضح کرنے کے بعد دنیا سے متعلق وعدوں کا ذکر ہوا ہے: 
وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ یعنی اللہ کی طرف سے مدد آیا ہی چاہتی اور فتح تمہارے قدم چوما چاہتی ہے. اور اے نبیؐ ! ہمارے مؤمن بندوں کو بشارت دے دیجیے کہ تمہاری سخت آزمائشوں کا زمانہ اب ختم ہوا چاہتا ہے. تم نے ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر دیا ہے اور جہاد کے تقاضے بھی پورے کر دیے ہیں. قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب آزمائش انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ اور اہل ایمان اس میں بھی اپنی ثابت قدمی اور استقلال کا مظاہرہ کر دکھاتے ہیں تب اللہ کی مدد بلاتاخیر دستگیری کے لیے آ جاتی ہے. اسی اصول کے تحت اس آیت میں بھی مؤمنین کو فتح اور نصرت کی خوشخبری سنائی گئی ہے.