خلافت ِراشدہ یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بعد جس نظام کو عرف عام میں خلافت کہا جاتا ہے‘ حدیث ِنبویؐ میں اسے ملوکیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے. تاہم اس دور کو ہم اس معنی میں خلافت کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کم از کم نظری طور پر کتاب و سنت کی مکمل بالادستی تسلیم کی جاتی تھی. اس قسم کی بالادستی خلافت ِبنو اُمیہ میں بھی تھی اور خلافت ِبنو عباس میں بھی ‘جبکہ خلافت عثمانیہ میں بھی یہ بالادستی قائم رہی. ہاں اقتدار کی منتقلی اور دولت کی تقسیم کا نظام عملاً بدل گیا تھا.دورِ بنو اُمیہ کے ۹۰ برس دراصل عبوری مدت ہے. خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے ملوکیت تک بات ایک دن میں نہیں پہنچی تھی‘ چنانچہ اصل ملوکیت تو بنو عباس کے دور میں شروع ہوئی.