اب ہم اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اُمت ِمسلمہ کی تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیتے ہیں. اس اُمت پر بھی بعینہٖ عروج و زوال کے وہی چار دور آ چکے ہیں جو تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں. اُمت ِمسلمہ کا پہلا دور عروج عربوں کی زیر قیادت آیا. اس پہلے دور میں خلافت ِراشدہ کا سنہری دور بھی شامل ہے. اس کے بعد خلافت ِراشدہ ختم ہو گئی مگر مسلمانوں کی حکومت موجود رہی. اس کے بعد پہلا دور زوال صلیبیوں کے ہاتھوں آیا. ۱۰۹۹ء میں یروشلم ہاتھ سے نکل گیا اورلاکھوں مسلمان قتل ہوئے. اس کے بعد ۱۲۵۸ء میں وہ فتنۂ تاتار آیا جس میں کروڑوں مسلمان قتل کر دیے گئے‘ ان کی عظیم مملکت تہس نہس کر دی گئی. ۱۲۵۸ء میں بغداد کاسقوط ہوا. بنو عباس کے آخری خلیفہ کو محل کے اندر سے گھسیٹ کر نکالا گیا اورجانور کی کھال میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سموں تلے کچلوا دیا گیا. حضرت شیخ سعدیؒ نے مرثیہ کہاتھا: ؎

آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوالِ ملک مستعصم امیر المؤمنیں!

(امیر المؤمنین مستعصم باللہ کی سلطنت کے زوال پر آسمان کو حق ہے کہ وہ زمین پر خون کے آنسو برسائے.)
دیکھئے دونوں اُمتوں کی تاریخ میں کتنی گہری مشابہت ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کاربن کاپی ہو. وہاں پہلے شمال سے آشوری آئے تھے ‘جب کہ یہاں پہلے یورپ 
یعنی شمال سے صلیبی آئے. وہاں مشرق سے کلدانی آئے تھے‘ جب کہ یہاں مشرق سے تاتاری آئے. وہاں لاکھوں انسانوں کا خون بہا‘ یہاں کروڑوں انسان تہ تیغ ہوئے (موجودہ اُمت ِمسلمہ کی وسعت کے لحاظ سے اس کے کروڑوں سابقہ اُمت مسلمہ کے لاکھوں کے برابر ہی ہیں). 
اس زوال کے بعد ہمارا دوسرا دور عروج شروع ہوا ؎ 

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!

یعنی اللہ نے مسلمانوں کو جن کے ہاتھوں پٹوایا تھا انہی کے ہاتھ میں اپنے دین کا پرچم تھما دیا. یہ دوسرا عروج سلطنت ِعثمانیہ کا دور ہے. چار سو برس تک خلافت کایہ ادارہ قائم رہا. اسے گویا بنی اسرائیل کی مکابی سلطنت کا دور سمجھئے. پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا.

سابقہ اُمت ِمسلمہ پر بھی عذاب کا دوسرا مرحلہ یورپی اقوام کے ہاتھوں آیا تھا‘ موجودہ اُمت پر بھی یورپی سامراج 
(European Imperialism) کا تسلط ہوا. سابقہ امت مسلمہ پر پہلے یونانی حملہ آور ہوئے پھر رومی آئے‘ جب کہ ہم پرولندیزی‘ انگریز اور اطالوی قوموں نے تسلط پا لیا.

جو چار ادوار سابقہ امت مسلمہ پر نبی اکرم  کی بعثت تک مکمل ہوئے تھے وہ اس امت پرر واں صدی کے آغاز میں پورے ہو گئے. سابقہ اُمت مسلمہ کے لیے بھی کہہ دیا گیا تھا کہ 
وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ(بنی اسرائیل: ۸یعنی ’’اگرتم باز نہیں آؤ گے تو ہم تم کو سزا پر سزا دیتے رہیں گے‘‘. چنانچہ ان کی سزا جاری رہی یہاں تک کہ صرف اسی صدی میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہٹلر نے قتل کیا. انسانی تاریخ میں پہلے اس طرح کبھی نہیں ہوا کہ انسانی لاشوں کو تلف کرنے کے لیے پلانٹ بنائے گئے ہوں. ایک طرف سے لوگ gas chamber میں داخل ہو رہے ہیں‘ کپڑے اتروا لیے گئے ہیں‘ ننگے داخل کیے جا رہے ہیں‘ مرتے جا رہے ہیں. اس کے بعد پٹوں کے اوپر لاشیں جا رہی ہیں اور آگے جا کر مشینیں ان لاشوں کو چارے کی طرح کاٹ رہی ہیں… بعد میں انہیں کیمیکل سے treat کیا جا رہا ہے‘اس لیے کہ اتنی لاشوں کو ٹھکانے (dispose off) کیسے لگایا جائے. کون اتنی قبریں کھودے اور کون جلانے کی مصیبت اپنے سر لے. آخر میں ان پلانٹوں سے ایک سیاہ بدبودار مائع نکلتا تھا جس کو وہ اپنے کھیتوں میں کھاد کے طور پر پہنچا دیتے تھے! یہ سب اسی بیسویں صدی کی بات ہے.