تاہم ایک بات میں تیقّن سے کہہ سکتا ہوں کہ خلافت کا احیاء شروع یہیں سے ہو گا. اس لیے کہ پوری اسلامی دنیا میں صرف اور صرف یہ ملک ایسا ہے جس میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی اور دس کروڑ عوام کی اسمبلی نے اعلان کیا کہ ہم حاکمیت سے دستبردار ہوتے ہیں‘ حاکمیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے. ہمارے پاس جو بھی اختیارات ہیں وہ ایک امانت ہیں اور یہ انہی حدود کے اندر اندر استعمال ہوں گے جو اصل حاکم نے مقرر کر دی ہیں. دنیا کے باقی تمام ممالک کے دساتیر میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ کسی ملک کے سرکاری مذہب کا نام اسلام لکھ دیا گیا ہے ‘جو بہت محدود اور مبہم بات ہے.
تبدیلی تو یہیں سے آئے گی ‘لیکن اس تبدیلی کی عملی صورت Hope for the best کے مصداق یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق دے دے اور بغیر کسی مزید عذاب اور سزا کے ہم اللہ کی طرف لوٹ آئیں. اور یہ توبہ کرنے والے اتنی معتدبہ تعداد میں ہوں جو جمع ہو کر یہاں پر انقلاب برپا کر دیں. معدودے چند افراد کی توبہ سے توظاہر ہے کہ کام نہیں چلے گا. اگرچہ اس توبہ کا آغاز بہرحال افراد سے ہو گا کہ ؏ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا!
مگر کیا اجتماعی توبہ کی یہ توفیق ہم کو نصیب ہو گی؟ عذاب کا ایک کوڑا ہم پر پچیس سال پہلے برس چکا ہے‘ مگر ہم ایک بار پھر اس عذاب کے مستحق بن چکے ہیں. تاریخ سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا. عذاب کا وہ کوڑا کوئی معمولی تو نہ تھا. بدترین شکست ہوئی‘ پاکستان دولخت ہوا‘ ۹۳ ہزار فوجی اور سویلین اس ہندو کی قید میں گئے جس پر ہم نے آٹھ سو برس تک حکومت کی تھی. اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو مزید مہلت دی‘ مگر افسوس! حالات اس طرف جا رہے ہیں کہ کہیں تاریخ پھر اپنے آپ کو نہ دہرائے. کسی قوم پر جب عذاب کے آثار شروع ہو جاتے ہیں تو پھر وہ ٹلا نہیں کرتا. پوری انسانی تاریخ میں اس کی واحد مثال حضرت یونس علیہ السلام کی قوم ہے‘ جس نے عذاب کے نمایاں آثار دیکھ کر اجتماعی توبہ کی اور اس کے نتیجے میں آتا ہوا عذاب ٹل گیا. یہی ایک راستہ مسلمانانِ پاکستان کے لیے بھی ہے کہ اجتماعی توبہ کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کریں. اگر ایسا نہ ہوا تو اندیشہ ہے کہ کوئی پہلے سے بھی زبردست کوڑا ہماری پیٹھ پر برسے گا.
تبدیلی کی دوسری عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عذاب کے اس دوسرے کوڑے کے بعد ہم ہوش میں آ جائیں. اگر ایسا ہوا تو یہ بڑا مبارک کوڑا ہو گا. جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (السجدۃ )
’’ہم انہیں آخری بڑے عذاب سے قبل چھوٹے عذاب کا مزا چکھائیں گے‘ شاید کہ وہ لوٹ آئیں.‘‘
اسی چھوٹے عذاب کا ایک کوڑا ہم پر پڑا تھا‘ لیکن دو ہزار میل دور ہونے کی وجہ سے ہم نے محسوس ہی نہیں کیا. کتنے لوگ مرے‘ کتنی عصمتیں لٹیں اور کتنے گھر اجڑ گئے‘ اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں. حد تو یہ ہے کہ ڈھائی تین لاکھ پاکستانی ابھی تک وہیں پڑے ہیں اور جانوروں سے بدتر حالت میں ایک ایک کوٹھڑی میں پندرہ پندرہ انسان رہ رہے ہیں! مگر ہم بہرحال مکمل تباہی سے بچ گئے. ہمیں اللہ تعالیٰ نے تازہ مہلت ِعمل (Fresh lease of existance) عطا کر دی. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نکسن کا دل موڑ دیا‘ اس نے ہاٹ لائن پر بھارت کو الٹی میٹم دے ڈالا. کوسیجن نے بھی اندرا گاندھی کو حکم جاری کر دیا. اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خصوصی مداخلت نہ ہوتی تو پھر جو تباہی آنی تھی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا. ان کا morale آسمان پر تھا جب کہ ہمارا پاتال میں. ہماری فضائیہ مفلوج ہو چکی تھی‘ ہمارے جہاز تو حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے. روس کے دیے ہوئے اواکس طیارے بھارت کو پاکستان میں اڑنے والی چڑیا کی بھی خبر کر دیتے تھے. وہ ہماری بحریہ کو کیماڑی میں مار کر چلے گئے تھے. ہمارا زمینی دفاع ٹوٹ چکا تھا سوائے ہیڈ سلیمانکی کے. شکر گڑھ اور راجستھان میں ہمارا محاذ ٹوٹ چکا تھا. ان حالات میں امریکہ اور روس کے صدور کی مداخلت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلوں کو پھیرنے کی قوت کا ظہور تھا اور مغربی پاکستان کا بچ جانا اللہ تعالیٰ کی مشیت کا مظہر ہے.