(۱) اس موقع پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت طالوت سے لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام تک کا دور جو تقریباً ایک سو برس پر محیط ہے‘ سابقہ اُمت ِمسلمہ کی خلافت راشدہ کا دور ہے.

(۲) اس سابقہ اُمت کا وجود تو کسی مصلحت کے تحت (جس کی وضاحت آگے کر دی گئی ہے) اب تک برقرار رکھا گیا ہے‘ تاہم وہ اپنے منصب سے معزول ہو چکی ہے.

(۳) ہمارے ہاں کچھ لوگ ’’خلفائے ثلاثہ‘‘ کی خلافت کے ہی نہیں ان کے اعمالِ صالحہ کے بھی منکر ہیں‘ مگر سورۃ النور کی یہ آیت ان کے ان سارے دعووں کی کامل نفی کرتی ہے. چنانچہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں جن آیات پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے ان میں سے پہلی آیت یہی ہے. حضرت شاہ صاحب ؒنے اپنے استدلا ل کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنے پختہ وعدے موجود ہیں تو ان وعدوں کا مصداق آخر خارج میں بھی تو ہو گا اور اگر ’’خلافت راشدہ‘‘ کے دور کو خلافت کا دور اور آیت کا مصداق مان لیا جائے تو قرآن مجید کی شہادت کے مطابق پہلے تین خلفاء بھی ایمان و عمل صالح کا حق ادا کرنے والے ٹھہرتے ہیں‘ گویا حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان اور عمل صالح کے مصداقِ کامل ٹھہرتے ہیں. جبھی تو ’’خلافت‘‘ کے حق دار ہوئے.‘‘

یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہوا ہے. ورنہ یہ لوگ اس آیت کو قرآن حکیم سے اب تک اس طرح کھرچ چکے ہوتے کہ اس کے وجود کا سراغ تک نہ ملتا.

(۴) مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اس آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

(۵) اسی مضمون کی آیت سورۃ التوبۃ میں بھی معمولی فرق کے ساتھ وارد ہوئی ہے: 
یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ ’’چاہتے ہیں کہ بجھا دیں روشنی اللہ کی اپنے منہ سے اور اللہ نہ رہے گا بدون پورا کیے اپنی روشنی کو اور پڑے برا مانیں کافر.‘‘ اس آیت میں بھی تذکرہ یہود ہی کا ہے. 

(۶) یہ اہم نکتہ ہے کہ قرآن مجید صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیتا ہے‘ لیکن فتح مکہ کا ذکر اس اہتمام سے نہیں کرتا. اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ صلح حدیبیہ میں کفار نے مسلمانوں کے وجود کو ایک طاقت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا اور یہ سب سے بڑی کامیابی تھی. ہمارے زمانے میں عربوں کے مقابلے میں یہود نے ۱۹۴۸ء میں زبردست کامیابی حاصل کی‘ پھر ۱۹۶۷ء میں یہود نے عربوں کے بڑے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ان کی طاقتور ترین حکومتوں مصر اور شام کو شکست سے دوچار کیا. لیکن اسرائیل کی اصل اور سب سے بڑی فتح یہ ہے کہ آج تمام عرب ممالک اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں. توہین و تذلیل کی حد ہے کہ سب کو اسرائیل کے سامنے ایک میز پر گفتگو کے لیے بلا لیا گیا ہے. حالانکہ عرب اس پر کبھی تیار نہ تھے ‘صرف مصر نے یہ ذلت گوارا کی تھی‘ لیکن اب سب کو میڈرڈ میں بلا کر بٹھایا گیا ہے. یہ میڈرڈ ’’تہذیب حجازی‘‘ کے مزار اندلس (اسپین) کا معروف شہر ہے. اس سے قبل میڈرڈ میں کوئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی‘ لیکن عربوں کی تذلیل کے لیے یہ جگہ منتخب کی گئی ہے‘ جہاں پر آٹھ سو سال انہوں نے حکومت کی تھی‘ مگر جہاں سے ان کا بچہ بچہ ختم کیاگیا اور جہاں سے ان کو ذلیل کر کے نکالا گیاتھا.

(۷۱۹۹۴ء تک

(۸) یعنی میں تمہارے درمیان بنفس نفیس موجود رہوں گا‘ پھر اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ (الزمر) (موت تم کو بھی آنی ہے اور موت ان کو بھی آنی ہے) کے تحت اللہ کے حکم سے نبی دنیا سے رخت سفر باندھ لیں گے.

(۹)واضح رہے کہ یورپ دو صلیبی جنگیں پہلے لڑ چکا ہے.

(۱۰) اس موقع پر ایک نہایت عبرت انگیز اور سبق آموز واقعہ اسیر مالٹا حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کا ہے. دورانِ اسیری انگریز کمانڈنٹ آپ کی درویشی سے متأثر ہو گیا. آپ نے اس سے پوچھا کہ آپ لوگ ہماری خلافت کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ یہ تو ایک مردہ خلافت ہے‘ اس سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟ اس نے جواب دیا ’’مولانا آپ اتنے سادہ نہ بنیے! آپ بھی جانتے ہیں اور ہم کو بھی معلوم ہے کہ یہ گئی گزری خلافت بھی اتنی طاقتور ہے کہ اگر کہیں دارالخلافہ سے جہاد کا اعلان ہو جائے تو مشرق سے مغرب تک لاکھوں مسلمان سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئیں گے.‘‘

(۱۱)منطق میں دو معلوم یا تسلیم شدہ باتوں یا قضیوں کو ترتیب دے کر کسی نامعلوم بات جسے نتیجہ کہتے ہیں‘ تک پہنچنے کو قیاس کہتے ہیں. معلوم قضیوں کا subject موضوع کہلاتا ہے. جس قضیہ کا موضوع زیادہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے وہ قضیہ ’’کبریٰ‘‘ کہلاتا ہے اور جس کا موضوع نسبتاً کم افراد پر مشتمل ہوتا ہے اس قضیہ یا مقدمہ کو ’’صغریٰ‘‘ کہتے ہیں. دو قضیوں میں جو مشترک بات ہوتی ہے اسے ’’حد اوسط‘‘ کہتے ہیں. صغریٰ اور کبریٰ میں سے حد اوسط نکال دینے سے نتیجہ سامنے آ جاتا ہے. مثلاً کرکٹ کھیل ہے (صغریٰ)‘ کھیل تفریح ہے (کبریٰ). نتیجہ: کرکٹ تفریح ہے. حد اوسط ’’کھیل‘‘ کو دونوں جملوں سے خارج کر کے نتیجہ معلوم کر لیا گیا.

(۱۲)ان تین نسبتوں میں سے ’’خلیل اللہ‘‘ کی نسبت بہت اہم ہے. حضور  نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا (لَــوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍ خَلِیْلاً ’’اگر میں (انسانوں میں سے) کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا‘‘.اس حدیث سے دو عظیم حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں. پہلی یہ کہ انبیاء کے علاوہ انسانوں میں سے عظیم ترین انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں. دوسری یہ کہ وہ بھی اس مقام پر نہیں کہ جس کو خلیل کہا جاسکے. ’’خلیل ‘‘ وہ لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے استعمال کر رہا ہے. فرمایا: وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النسا ئ) یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو خلیل بنا لیا.‘‘

(۱۳)جہاں جہاں تم کو رنگ و بو کی ایسی دنیا نظر آتی ہے جس کی خاک سے آرزو کا پودا پھوٹتا ہے‘ اس دنیا کی رونق یا تو مصطفی  کے نور سے ہے یا وہ دنیا ہنوز مصطفی  کی تلاش میں ہے.

(۱۴)اس ’’جمعیت اقوام‘‘ کے بارے میں اقبال نے تبصرہ کیا تھا: ؎
بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن
پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے!
ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرکِ افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے!

(۱۵)(i) صیہونی اکابر تینتیسویں مرتبہ پر فائز یہودی دانشور ان کے کئی خفیہ اجلاس ۱۸۹۷ء 
سے منعقد ہونا شروع ہوئے.

(ii) صیہونی اکابر کے خفیہ اجلاس میں ساری دنیا پر یہود کی حکومت قائم کرنے کے لیے جو خفیہ دستاویز تیار کی گئی تھی وہ ’’پروٹوکول‘‘ کے مختصر نام سے معروف ہے. اس کا پورا نام 
’’ The Protocols of the Elders of the Zion‘‘ ہے. اس دستاویز میں ۲۴ دفعات ہیں. اس خفیہ دستاویز کو پہلے دو روسی اخباروں نے شائع کیا‘ پھر عیسائی پادریوں نے ۱۹۰۵ء میں اس یہودی سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے شائع کیا. اس کا نسخہ برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے. یہود اس دستاویز کو عام نہیں ہونے دینا چاہتے اور جہاں بھی اس کے نسخے ملتے ہیں انہیں ضائع کرنے کے درپے رہتے ہیں‘ تاکہ غیر یہود ان کی سازشوں سے بے خبر رہیں.

(۱۶)جنگ عظیم اوّل میں برطانوی وزیر خارجہ‘ جس نے جنگ میں یہودی امداد کے معاوضہ میں بعد ازاں فلسطین میں یہودی حکومت (اسرائیل) کے قیام کا اعلان کیا تھا.

(۱۷)قرآن حکیم کی ایک آیت سے بھی اشارہ نکلتا ہے کہ دونوں… حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام … کے درمیان کوئی دوسرا نبی نہیں تھا. آل فرعون میں سے ایک مؤمن کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا ؕ (غافر :۳۴’’یہاں تک کہ جب وہ (حضرت یوسف ؑ) وفات پا گئے تو تم یہ کہنے لگے اب ان کے بعد اللہ کوئی اور رسول نہیں اٹھائے گا.‘‘

(۱۸)واضح رہے کہ یہ خطاب ۱۹۹۳ء کا ہے اور ’’تازہ الیکشن‘‘ سے مراد ۱۹۹۳ء کے انتخابات ہیں. 

(۱۹)ہماری جہالت اور بدبختی لائق ماتم ہے کہ ہم نے اپنی بے عملی‘ بدعملی یا دورنگی کے جواز کے لیے خوب خوب عذر تراش رکھے ہیں. چنانچہ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بد ہیں تو کیا ہوا‘ ہیں تو اُمت ِمحمد  میں. ہم اللہ اور رسول کو مانتے ہیں… نہ ماننے والوں سے تو اچھے ہیں. ہم بڑی عقیدت کے مظاہرے کے ساتھ کہتے ہیں: ’’ہم تیرے محبوبؐ کے اُمتی ہیں‘‘ اور پھر اگر ہم کچھ احکام پر عمل کر لیتے ہیں تو ان کے مقابلے میں تو بہتر ہی ہیں جو کسی حکم کو نہیں مانتے. آخر کچھ تو ہمارا کریڈٹ ہونا چاہیے.

یہ ہے ہماری سوچ کا انداز‘ مگر قرآن حکیم ہمیں دوسرا ہی فیصلہ سناتاہے. یہود کی روش یہ تھی کہ مختلف یہودی قبائل اپنے اپنے حلیف غیر یہودی قبائل کے ساتھ مل کر دیگر یہودی قبائل سے جنگ کرتے اور ان کو گھروں سے نکال کر قیدی بناتے. مگر جب وہ گرفتار ہو کر آتے تو ان کو یاد آ جاتا کہ یہ تو ہمارے یہودی بھائی ہیں‘ ان کو ہم گرفتار کیسے دیکھ سکتے ہیں. چنانچہ ان کا فدیہ ادا کر کے ان کو رہائی دلاتے اور فدیہ ادا کرنے کے لیے چندے جمع کرتے. یہود کی اس روش پر تنقید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ (البقرہ: ۸۵’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کے منکر ہو؟‘‘ پھر اس روش کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص یہ طریقہ اختیار کرتا ہے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں وہ رسوا ہو اور آخرت میں اس کو سخت عذاب میں ڈالا جائے.‘‘ یہ اللہ کا ابدی قانون ہے‘ اس میں کسی کے ساتھ رو رعایت نہیں کی جاتی ہے.

(۲۰) امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد مرحوم اس معاملے کو ’’چمار کے ہاتھوں پٹوانا‘‘ کہا کرتے تھے.

(۲۱)یہود کے تابوت سکینہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے. یہ تابوت جو یہود کے دشمنوں کے پاس چلا گیا تھا اس کی واپسی کو ’’طالوت‘‘ کی سرداری کی علامت کے طور پر یہاں بیان کیا گیا ہے. اس ’’تابوت سکینہ‘‘ میں‘ کہا جاتا ہے کہ وہ الواح موجود ہیں جن پر تورات لکھی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی. اس کے اندر حضرت موسیٰ ؑ کے عصا کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے. چنانچہ یہود اس ’’تابوت سکینہ‘‘ کو بہت مقدس جانتے ہیں اور اس کو اپنی فتح کی علامت تصور کرتے ہیں.

(۲۲)حضور پر آغاز وحی رویائے صادقہ سے ہوا. آپؐ جو خواب دیکھتے ‘چند دنوں بعد یا اگلے ہی دن وہ واقعہ کی صورت میں ظہور پذیر ہو جاتا. اسی بات کو ایک حدیث میں ’’مثل فلق الصبح‘‘ (صبح صادق کی پو پھٹنے کی مانند) قرار دیا گیا ہے.