قرآن حکیم میں سیاسی اور معاشی نظام کا کوئی ڈھانچہ سرے سے موجود نہیں ہے. سیاسی نظام کے صرف اصول دیے گئے ہیں‘ جب کہ معاشی نظام کے کچھ اصول بھی دیے گئے اور کچھ احکام بھی موجود ہیں. گویا قرآن حکیم کی ترتیب کی رو سے اجتماعی زندگی میں اوّلین اہمیت عائلی اور خاندانی نظام کو حاصل ہے‘ جبکہ عہد ِحاضر میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گیا ہے. آج کی دنیا میں اہم ترین شے سیاسی اور دستوری ڈھانچہ ہے. اس لیے کہ جو کچھ دستور میں طے ہو جائے گا‘ گاڑی اسی کے مطابق چلے گی. مثلاً دستور کے اندر یہ طے کر دیا جائے کہ کوئی بھی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہو سکتی تو ملک میں ایوب خان کے رائج کردہ عائلی قوانین بھی چیلنج کیے جا سکتے ہیں. گویا اس عہد میں پورے معاشرتی نظام کو کنٹرول کرنے والی چیز دستور ہے‘ لیکن قرآن حکیم نے دستوری ڈھانچے کے تمام مباحث کو کھلا چھوڑ دیا ہے. (۴)
دوسری اہم بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جہاں تک ریاست کے پورے نظام کا تعلق ہے ‘ مثلاً یہ کہ اعضاء ریاست (organs of the state) کون کون سے ہیں‘ ان کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کس طرح ہو گی‘ نیز تحدید و توازن (checks and balances) کا پورا نظام کیسے وجود میں آتا ہے‘ غرض یہ سارا فن جس کو state craft کا نام دیا گیا ہے‘ یہ تفصیلی ڈھانچہ ہمیں خلافت ِراشدہ میں بھی ابتدائی صورت میں ملے گا. ورنہ دنیا میں یہ پورا ڈھانچہ حقیقتاً بعد میں وجود میں آیا ہے. بعض حقائق کو جرأت کے ساتھ تسلیم کر لینے ہی سے بات آگے چلے گی. جب خلافت راشدہ کا عہد ختم ہوا تو اُس وقت یہ امتیاز کہیں موجود نہ تھا کہ یہ انتظامیہ ہے‘ یہ مقننہ ہے اور یہ عدلیہ ہے. خلافت راشدہ میں یہ اصول ضرور تھا کہ اگر خلیفہ غلط راستے پر چلے تو اسے روکا جائے. اب کیسے روکا جائے؟ اس کا کوئی معین راستہ نہیں تھا. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بیعت کے بعد فوراً اعلان کر دیا کہ اگرمیں سیدھا چلوں تو تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دینا.
اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے. آپؓ نے ایک دفعہ مسلمانوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا: میں سیدھا چلوں‘ صحیح حکم دوں تو تم کیا کرو گے؟ سب نے جواب دیا: ’’نَسْمَعُ وَنُطِیْعُ‘‘ کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے! اس کے بعد آپؓ نے پھر پوچھا: اگرمیں کوئی غلط راستہ اختیار کروں تو کیا کرو گے؟ اس پر ایک شخص مجمع میں سے کھڑا ہو گیا اور اس نے تلوار نیام سے باہر نکال کر کہا کہ ہم تمہیں ا س سے سیدھا کر دیں گے. اس پر حضرت عمر ؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے ارد گرد کوئی اندھی بہری بھیڑ نہیں ہے بلکہ یہ زندہ اور ہوش مند لوگ ہیں جو عمرؓ کو بھی سیدھا کر سکتے ہیں.