یورپ اور مغرب کی سائنسی ترقی کے اعتراف کے ساتھ ایک دوسری چیز بھی ہماری توجہ کی مستحق ہے. وہ یہ کہ محمد نے ہمیں عوامی حقوق کا اعلیٰ وارفع نظام (۵دیا تھا‘ مگر اس کو ہم نے تو ضائع کر دیا‘ ہم سو گئے‘ مگر یورپ نے اسے اپنے خون سے سینچا. 

فرانسیسیوں نے اپنے خون سے ملوکیت کا خاتمہ کیا اور جمہوریت لائے‘ انسانی حقوق کا تصور دوبارہ اُجاگر کیا. انسانی حقوق کا یہ تصور ہم نے دیا تھا‘ لیکن ہم خود ہی اس سے محروم ہو گئے. علامہ اقبال نے کہا تھا: ؎ 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
زانکہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفی ؐ او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی‘ؐ است
(۶)

بہرحال اس معاملے میں بھی ہمیں یورپ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے ریاست کی پوری مشینری ایجاد کی ہے. یہ اصول بھی انہوں نے ہی دیا کہ ریاست کے تین اجزاء (اعضاء) مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ ہیں. یہ کام بھی ہم نے نہیں کیا ہے. جس طرح ہم ان کی سائنسی ایجادات کی نفی نہیں کرتے‘ بلکہ ان سے استفادہ کرتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ہمیں ان چیزوں کی بھی نفی نہیں کرنی چاہیے. اگر ہم نے ان کے عمرانی اور سیاسی اصولوں کو اسلام کے اصولوں کے ساتھ اختیار نہ کیا تو نقصان اپنا ہی کریں گے. ہماری اس روش کا بھی ان کو کچھ نقصان نہ ہو گا.

عہد ِحاضر میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست کے اصول وہاں سے لینے ہوں گے‘ البتہ یہ دیکھنا ہو گا کہ جو چیز اسلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اسے چھوڑ دینا ہو گا. سائنس اور ٹیکنالوجی کا معاملہ اس اعتبار سے بالکل مختلف ہے جو اسلام سے سوفی صد مطابقت رکھتی ہے‘ جب کہ عمرانی اور سیاسی فلسفہ و فکر قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا. البتہ اس بات کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ جو چیز اسلام کے ساتھ سازگاری اختیار کر سکتی ہے وہ گویا ہماری متاع ہے. اس معاملے میں ہماری روش ہونی چاہیے 
’’خُذْ مَا صَفَا دَعْ مَاکَدَرَ‘‘ (۷بلکہ بقول شاعر: ؎ 

خوش تر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیر قرآنش کنی
(۸