ان اصولی باتوں کے بعد اب ہم ان تین چیزوں پر روشنی ڈالیں گے‘ جن کے شامل کرنے سے کسی بھی نظام حکومت کو خلافت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.
اللہ تعالیٰ کی حاکمیت:
سب سے پہلے یہ بات تسلیم کی جائے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے‘ کیونکہ خلافت کے لیے پہلی شرط لازم ہی یہ ہے کہ بندہ حاکمیت سے اللہ کے حق میں دستبردار ہو جائے اور تسلیم کر لے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے‘ بندہ محض اُس کا خلیفہ ہے. (۱۱)
الحمد للہ ہمارے ملک میں دستور کی اساس قرار دادِ مقاصد میں اللہ کی حاکمیت کا یہ اقرار صراحت کے ساتھ موجود ہے. اس میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ہمارے پاس جو بھی اختیارات ہیں وہ ہمارے ذاتی نہیں بلکہ عطا کردہ (delegated) ہیں ‘ اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس امانت ہیں.یہ اختیارات انہی حدود میں رہ کر استعمال ہوں گے جو اصل حاکم نے معیّن کی ہیں. گویا دستوری سطح پر خلافت کا اعلان کر دیا گیا. جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں ملک کی آبادی کی اکثریت کا لحاظ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سرکاری مذہب کا اعلان اس قسم کے الفاظ میں کر دیا جاتا ہے: "Religion of the state is Christianity" . ہمارے دستور میں سرکاری مذہب کا اعلان بھی ہے کہ وہ اسلام ہے‘ حالانکہ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد اس اعلان کی چنداں ضرورت نہ تھی.
۲. کتاب و ُسنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت:
نظام خلافت کا دوسرا لازمہ یا دوسری شرط یہ ہے کہ دستوری سطح پر طے کر دیا جائے کہ یہاں کوئی قانون کتاب و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا. اس لیے کہ اللہ کی حاکمیت کا نفاذ ہو گا کیسے؟ مقننہ جو بھی ہو‘ اس کا نام چاہے پارلیمنٹ ہو‘ مجلس ملی ہو‘ مجلس شوریٰ ہو یا کسی اور نام سے موسوم ہو‘ اس کا دائرہ قانون سازی کیا ہو گا؟ یہ ادارہ یعنی مقننہ جدید ریاستی ڈھانچے کا اہم حصہ ہے. آج کل یہ ادارہ دستور اور بالخصوص بنیادی حقوق کے خلاف تو قانون سازی کرنے کا مجاز نہیں ہوتا‘ باقی اسے ہر قسم کے قوانین بنانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے‘ لیکن نظامِ خلافت میں یہ ادارہ اپنے اختیاراتِ قانون سازی کو کتاب و سنت کے تابع رکھنے کا پابند ہوتا ہے. چنانچہ دستوری سطح پر یہ طے کر دیا جائے گا:
"Legislature's authority is limited by the injuctions of the Quran and the Sunnah"
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر۱ میں اس مفہوم کی بہترین الفاظ میں تعبیر کی گئی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ
’’اے اہل ِایمان! اللہ اور اس کے رسولؐ سے آگے مت بڑھو.‘‘
اللہ کی حدود قرآن میں موجود ہیں‘ جب کہ رسولﷺ کی حدود حدیث میں موجود ہیں. اللہ تعالیٰ کی نمائندگی قرآن مجید کر رہا ہے‘ جب کہ رسولﷺ کی قائم مقامی ’’سنت‘‘ کو حاصل ہے. چنانچہ آئینی سطح پر کسی استثناء کے بغیر کتاب و سنت کی کامل بالادستی قبول کرنی ہو گی. اگر اس میں ایک چیز بھی نکال دی تو پورا معاملہ ختم ہو جائے گا. پھر ہم اس وعید کی زد میں ہوں گے جو سورۃ البقرہ میں بنی اسرائیل کو سنائی گئی ہے:
اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو‘ تو تم میں سے جو شخص یہ کام کرے اس کا بدلہ اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کو رسوائی ہو اور آخرت میں ان کو سخت عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا.اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے.‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اس وعید کا مخاطب بننے سے محفوظ رکھے. آمین!
کتاب و سنت کی بالادستی تسلیم کرنے کی ایک بہترین مثال ایک حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی آخِیَّتِہٖ‘ یَجُولُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی آخِیَّـتِہٖ (مسند احمد)
’’مومن کی مثال اس گھوڑے جیسی ہے جو اپنے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے‘ گھوم پھر کر اپنے کھونٹے کی طرف لوٹ آتا ہے.‘‘
آزاد گھوڑا تو جہاں چاہے چرتا پھرے‘ لیکن کھونٹے سے بندھا گھوڑا تو بس وہیں تک جا سکتا ہے جہاں تک اس کی رسّی اسے جانے کی اجازت دے. رسّی کی لمبائی کے مطابق بننے والے دائرے کے اندر البتہ اسے مکمل آزادی ہے کہ جدھرچاہے‘ جائے.
یہ حدیث مبارکہ اسلامی ریاست اور نظام خلافت کے دستور کی بہترین مثال ہے. چنانچہ کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ ﷺ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اہل ایمان آزاد ہیں. وہ ’’ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ‘‘ کے اصول پر خود فیصلے کر سکتے ہیں‘ لیکن اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے.
۳. مخلوط قومیت کی نفی:
یہ نظام خلافت کا تیسرا لازمہ ہے جسے دنیا کے کسی بھی جمہوری نظام میں شامل کر کے اسے نظامِ خلافت بنایا جا سکتا ہے.