البتہ ووٹر پر کچھ نہ کچھ قیود تو لگانی پڑتی ہیں. اس ضمن میں ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ووٹر کی عمر کتنی ہونی چاہیے. ۲۰ سال ہو یا ۲۱ سال ہو؟ یا اس سے کچھ کم و بیش ہو؟ میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ ووٹر کی عمر چالیس سال ہونی چاہیے. میں یہ بات بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ کوئی نہ کوئی حکمت تو ہے کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً (الاحقاف: ۱۵) ’’یہاں تک کہ جب وہ اپنی قوت کو پہنچا اور اس کی عمر چالیس سال ہو گئی.‘‘ اگر ووٹر کی عمر چالیس سال نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ اس صورت میں شہریوں کا ایک بہت بڑا طبقہ نظام چلانے میں اپنی شرکت کے احساس سے محروم ہو جائے گا‘تو انتخابی امیدوار کی عمر ۴۰ سال سے کم نہ ہونی چاہیے. لیکن یہ تمام امور مباحات کے دائرے میں آتے ہیں اور باہمی مشاورت سے طے کیے جا سکتے ہیں. نیز پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے.
یہ بھی ممکن ہے کہ باہمی مشورے سے ووٹر کے لیے تعلیم کی بھی کوئی کم سے کم حد مقرر کر دی جائے‘کیونکہ تعلیم کا تو کوئی پیمانہ ہو سکتا ہے‘ مگر تقویٰ کو ووٹر کی اہلیت میں مدنظر نہیں رکھا جا سکتا. کیا پتا کہ کسی نے ظاہری طور پر تو تقویٰ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو لیکن اندر سے حقیقت کچھ اور ہو.