مزارعت کے بارے میں ائمہ فقہ کے مسلک

مزارعت امام ابوحنیفہؒ اور امام مالک ؒ دونوں کے نزدیک مطلقاً حرام ہے‘ پھر مزارعت کیسے اور کیونکر جائز ٹھہرائی گئی؟ اس کی وضاحت میں کروں گا. فقہ حنفی میں اس کی حلت کا فتویٰ صاحِبَین (قاضی ابویوسف اور امام محمد رحمہمااللہ)نے دیا‘ لیکن ہمارے چوٹی کے دو ائمہ اس کے حرامِ مطلق ہونے کے قائل ہیں. ان دونوں ائمہ کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ ان میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کو اہل الرائے کا سرخیل تسلیم کیا جاتا ہے‘ جبکہ امام مالک ؒ اصحابِ حدیث کے سرخیل ہیں. گویا دونوں مکاتب فکر کے top most ائمہ مزارعت کو حرامِ مطلق سمجھتے ہیں. حرام ہونے کی وجہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مزارعت کو مضاربت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ میں پورے جزم کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ مزارعت حرام ہے‘ جائز نہیں ہے.

امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما نے کچھ شرائط عائد کر کے مزارعت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مزارعت کا نظام ان شرائط کو بھی پورا نہیں کرتا. کچھ عرصہ قبل کلاچی کے مشہور عالم اور قاضی عبداللطیف کے بڑے بھائی جناب مولانا قاضی عبدالکریم صاحب سے میری خط و کتابت اسی موضوع کے بارے میں ہوئی تھی. ان کا کہنا یہ تھا کہ مروّجہ مزارعت کو کون حلال کہتا ہے؟ قاضی ابویوسف رحمہ اللہ علیہ بھی اسے جائز نہیں کہتے‘ بلکہ جواز کے لیے بڑی کڑی شرطیں عائد کرتے ہیں. یہ معاملہ غیر حاضر ملکیت ِزمین کا ہے. تم اپنی زمین خود کاشت کرو‘ اور اگر معاملہ اس کے برعکس کر رہے ہو تو تم نے سودی معاملہ کیا.