زمین کی ایک قسم وہ ہے جس کے مالک کسی جنگ و جدال کے بغیر ایمان لے آئے ہوں. ایسی زمین انہی کی ملکیت شمار ہو گی اور اس کی پیداوار میں سے عشر وصول کیا جائے گا. ایسی زمین کو عشری زمین کہا جاتا ہے. اس قسم کی زمین کی سب سے نمایاں مثال مدینہ منورہ کی زمینیں ہیں. مدینہ کو نبی اکرم  نے فتح نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت  کو مدینہ آنے کی دعوت دی تھی.

عشر دو طرح کا ہوتا ہے. جو زمین بارش یا قدرتی ذرائع سے سیراب ہوتی ہو تو اس سے پورا عشر یعنی پیداوار کا ۱۰ فیصد وصول کیا جائے گا. اس کے برعکس جس زمین کی آبپاشی مصنوعی طریقہ پر ہو اور اس کے لیے کاشتکار کو اخراجات دینا پڑیں‘ مثلاً آبیانہ ادا کرنا پڑے یا ڈیزل‘ بجلی خرچ ہو تو اس پر نصف عشر یعنی پیداوار کا ۵ فیصد وصول کیا جائے گا.
زمین کی دوسری قسم وہ ہے جسے خراجی کہا جاتا ہے. یہ ان علاقوں اور ملکوں کی زمینیں ہیں جو بزورِ شمشیر فتح ہوئے ہیں. ایسی زمینیں مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں‘گویا یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہیں. اس زمین میں ایک انچ کسی کا ملکیتی رقبہ نہیں ہے. جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر قابض تھے ‘وہ عیسائی ہوں‘ مجوسی ہوں‘ قبطی ہوں یا یہودی ہوں‘اب ان کی حیثیت کاشت کار کی ہوگی اور وہ زمین کا خراج براہ راست خود بیت‘المال کو ادا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے. خراج کی شرح اسلامی حکومت اپنے اجتہاد سے مقرر کرے گی. نظامِ خلافت میں ریونیو کا سب سے بڑا 
source مسلمانوں کا بیت المال ہوگا.

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا اجتہاد کی روشنی میں مسلمانانِ پاکستان کے لیے زمینوں کا مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں رہا. ہم اس مسئلے کو شریعت کے مطابق حل کر سکتے ہیں. اسلامی شریعت کی رو سے پاکستان کی ایک انچ زمین کسی کی ملکیتی زمین نہیں ہے‘ کیونکہ پاکستان کے تمام علاقے بزورِ شمشیر فتح ہوئے تھے. اب کسی اور دلیل سے ملکیت ثابت نہیں کی جا سکتی. یہ زمین خراجی ہے جو کسی کی ملکیت نہیں ہے. یہ ہے وہ شمشیر ِفاروقی جسے ہاتھ میں لے کر اراضی کا ایک نیا بندوبست قائم کیا جا سکتا ہے‘ جس سے جاگیرداری کی جڑ کٹ سکتی ہے. جو لوگ اب تک اس اصول کے خلاف زمینوں پر ملکیت کا دعویٰ کر کے اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں ان کو اسی قسم کی چھوٹ دی جا سکتی ہے جیسی اللہ تعالیٰ نے سود پر قرض دینے والوں کو رعایت دی تھی‘ یعنی جو سود پہلے لیا جا چکا ہے اسے معاف کیا جاتا ہے‘ آئندہ کے لیے سود لینا قطعی حرام ہے. زمینوں کی آمدنی کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہو چکا‘ سو ہوچکا. اب مستقبل میں زمینوں پر تمام قابض لوگوں کی حیثیت کاشتکاروں کی ہے اور اسی حیثیت میں وہ زمینوں سے استفادے کے مجاز ہوں گے.

نئے بندوبست ِاراضی کے بعد جو لوگ پہلے سے زمین کاشت کر رہے ہیں وہ بعد میں بھی زمین کاشت کرتے رہیں گے‘ آخر وہ بھی مسلمان ہیں اور اسی معاشرے کے افراد ہیں. اس ضمن میں یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اچھی طرح گزارے کے لائق صحیح یونٹ کتنے ایکڑ پر مشتمل ہونا چاہیے جو پیداوار اور انتظامی اعتبار سے بہتر ہو. وہ یونٹ سب کو دیا جائے. اب کاشتکار اور بیت المال کے بیچ میں نہ کوئی جاگیر دار ہو گا نہ زمیندار‘ بلکہ خراج براہِ راست بیت المال کو ادا کیا جائے گا. اس طرح بہت سی لعنتی قسم کی کٹوتیوں اور ٹیکسوں سے کاشتکار کی جان چھوٹ جائے گی.
اس وقت علمائے کرام نے پاکستان کی زمینوں کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بحث شروع کر دی ہے. یہ ایک اچھی علامت ہے. ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر کھل کر بحث ہو تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے. مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ نے بھی اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے اور انہوں نے پاکستان کی زمینوں کو عشری قرار دیا ہے. ان کے دلائل اپنی جگہ ‘لیکن آزادانہ بحث و مباحثہ بہرحال ضروری ہے. 

میں اس بحث میں ایک حوالہ پچھلی صدی کے ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں سے قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ علیہ کا دینا چاہتاہوں. قاضی صاحب محتاجِ تعارف نہیں ہیں. ’’تفسیر ِمظہری‘‘کے مصنف اور حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں شہید رحمہ اللہ علیہ کے شاگرد اور خلیفہ ٔمجاز تھے. انہوں نے فقہ کے بنیادی مسائل پر ایک رسالہ ’’مالا بُدّ مِنہ‘‘ کے نام سے لکھا ہے. اس رسالے میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی ساری زمینیں چونکہ خراجی ہیں اس لیے میں عشر کے مسائل نہیں لکھ رہا ہوں‘‘. فقہ کا یہ رسالہ آج بھی ہمارے تمام قدیم مدارس میں پڑھایا جاتا ہے. 

پاکستان کی زمینوں کے حوالے سے علمی سطح پر گفتگو ضرور ہونی چاہیے‘بلکہ ان زمینوں کی شرعی حیثیت کا اب باقاعدہ فیصلہ ہو جانا چاہیے. میں نے ضیاء الحق مرحوم کی شوریٰ میں یہ تجویز دی تھی کہ آپ ایک لینڈ کمیشن بنائیے‘ جس میں پاکستان کے نہ صرف جید علماء کو شامل کیا جائے بلکہ بندوبست ِاراضی کے ماہرین کی خدمات بھی لی جائیں. علماء وہ شامل کیے جائیں جو اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں اور جو قرآن و سنت کے اصل اہداف کو سامنے رکھ سکیں. پھر اس کمیشن کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیجیے تاکہ وہ یہاں کی زمینوں کی شرعی حیثیت متعین کر دے. تاہم‘ میں تو یہی عرض کروں گا کہ اس ضمن میں بھی اصل ذمہ داری ان مذہبی سیاسی جماعتوں پر ہے جو اپنے اپنے منشور میں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ زمین کی ملکیت کی ایک حد متعین کر دیں گی جبکہ اس تحدید کے لیے دلیل ان کے پاس کوئی نہیں ہے.