دورِ ملوکیت کے آغاز ہی میں اسلامی تاریخ بہت سے حادثات سے دو چارہونا شروع ہو گئی تھی. چنانچہ کربلا کا واقعہ‘ حرہ کا واقعہ‘ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ پھر حجاج بن یوسف کے ہاتھوں سینکڑوں تابعین کا شہید ہونا‘ اس کے علاوہ حضرت محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ. یہ تمام خرابیاں اور حادثات اپنی جگہ‘ لیکن میرے نزدیک دورِ ملوکیت کی اصل خرابیاں مالیاتی ہیں. بنو اُمیہ کا دَور تو ملوکیت کا نقطۂ آغاز تھا. ملوکیت نے گہری جڑیں دورِ بنو عباس میں پکڑی تھیں. ابتدا میں نہ کوئی شرک کا فتنہ تھا‘ نہ کوئی باطل عقائد اسلام میں در آئے تھے‘ نہ معتزلہ پیدا ہوئے تھے اور نہ بدعات کا طوفان کھڑا ہوا تھا. ایک طرف خرابی صرف سیاسی اور دستوری سطح پر آئی تھی کہ خلافت شورائی نہیں رہی تھی بلکہ موروثی ہو گئی تھی. دوسری طرف سب سے بڑی خرابی مالیاتی امور میں در آئی تھی. اس ضمن میں ایک بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جاگیرداری کی حیثیت ملوکیت کے لیے پاؤں کی ہے. گویا سب جاگیر دار ملوکیت کے ’’پاؤں‘‘ ہوتے ہیں. لہذا دورِ ملوکیت میں پہلا کام یہ ہوا کہ بڑے بڑے رقبے دے کر لوگوں کو نوازنا شروع کیا گیا. یہی وجہ ہے کہ ہمارے پہلے اور آخری صاحب ِاختیار مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کا دوسرا تجدیدی کارنامہ (۳) یہی تھا کہ اُس وقت تک جتنی بھی جاگیریں عطا کی گئی تھیں ان سب کی دستاویزات منگوائیں اور قینچی سے کتر کر ان کا ڈھیر لگا دیا.