زکوٰۃ کا اصل نظام کیاہے ؟ وہ نظام یہ ہے کہ تمام اموالِ تجارت پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نافذ کی جائے گی. فرض کیجیے آپ کی دکان میں پانچ لاکھ کا مال پڑا ہوا ہے‘ آپ سے اس پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کر لی جائے گی. اس طرح آپ کی آمدنی (income) سے کوئی بحث سرے سے ہے ہی نہیں. اس بات کا بھی امکان ہے کہ انکم تو کجا ‘گزشتہ سال چھ لاکھ کا مال رہا ہو اور اس سال پانچ لاکھ کا رہ گیا ہو. زکوٰۃ ایک لاکھ کے خسارے کے بعد بھی دینی ہو گی. جب تک کوئی شخص صاحب نصاب ہے‘ اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی. اگر کوئی نصاب سے نیچے ہے تو اب اس کا شمار لینے والوں میں ہو جائے گا. آپ کے پاس جتنا بھی مالِ تجارت گودام میں یا دکان میں ہے‘ آپ کو اس کا اڑھائی فیصد دینا ہو گا. اگر کوئی کارخانہ ہے تو مشینیں‘ زمین اور عمارت مستثنیٰ ہوں گی . اس کے علاوہ جتنا بھی خام مال اور تیار شدہ مال موجود ہے‘ اس سب پر زکوٰۃ نافذ ہو گی.

زکوٰۃ کے نظام کو اگر اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کر دیا جائے تو اسکینڈے نیوین ممالک سے کہیں بہتر ویلفیئر کا نظام لایا جا سکتا ہے. اس ویلفیئر کے نظام کا فائدہ یہ ہوگاکہ دولت گردش میں آئے گی. یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو گا تو اس سے کاروبار میں تیزی آئے گی. اس طرح زکوٰۃکی برکات پھر لوٹ کر پورے معاشرے میں پھیل جائیں گی اور خوش حالی آئے گی. اس خوش حالی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ بھی معاشرے کا جزو ہونے کی وجہ سے مستفید ہوں گے اور آپ کو بھی فیڈ بیک مل جائے گا. 

زکوٰۃ کے نظام کے حوالے سے ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے کہ مال کی دو قسمیں ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے زمین کی دو قسمیں ہیں. مال کی دو قسمیں یہ ہیں: (i)اموالِ ظاہرہ‘(ii) اموالِ باطنہ. مال کی ان دونوں اقسام کو سمجھنے سے تاریخ اسلام کے اس واقعہ کی حقیقت بھی سمجھ میں آجائے گی کہ خلافت ِراشدہ کے دور میں لوگ زکوٰۃ لیے پھرتے تھے مگر زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا. خلافت ِراشدہ میں زکوٰۃ تو بیت‘المال وصول کرتا تھا‘ یہ زکوٰۃ لے کر پھر نا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ کی تقسیم سمجھنے سے واضح ہو جائے گا.

اموالِ ظاہرہ یعنی وہ مال جو مخفی نہیں ہے‘ مثلاً سامانِ تجارت جو دکان یا گودام میں موجود ہے‘ اس مال کو جیب میں یا تکیے کے نیچے رکھ کر چھپایا تو نہیں جا سکتا. اسی طرح مویشیوں کے گلے ہیں‘ ان کی گنتی بھی بآسانی ممکن ہے. کارخانے ہیں جن کی مصنوعات آنکھوں کے سامنے ہیں کہ اتنا دھاگہ ہے‘ اتنا کپڑا ہے‘ اتنی روئی ہے. چنانچہ یہ اور اسی طرح کے تمام اموال ظاہرہ پر نظام خلافت میں زکوٰۃ عائد کی جائے گی اور جبراً بھی وصول کی جائے گی‘ کیونکہ نظام خلافت کے تحت ہر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے. اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ جبراً بھی وصول کی جائے گی (۴.یہ جبری وصولی اموالِ ظاہرہ ہی سے کی جائے گی اور ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا.
اموال کی دوسری قسم ’’اموالِ باطنہ‘‘ ہیں‘ جیسے کہ وہ نقدی یا زیور جو آپ نے اپنے گھر میں کسی آڑے وقت کے لیے رکھ چھوڑا ہے. ان کی تلاشی نہیں لی جائے گی‘ نہ 
ان اموال کی زکوٰۃ جبراً وصول کی جائے گی. یہ آپ کا اور اللہ کا معاملہ ہے. اس میں آپ کو یہ آزادی حاصل ہے کہ چاہیں تو زکوٰۃ ریاست کو دے دیں‘ چاہیں تو اپنے طور پر دے دیں. یہی اموالِ باطنہ تھے کہ جن کی زکوٰۃ لوگ لے کر پھرتے تھے لیکن کوئی قبول کرنے والا نہیں ملتا تھا.