میں نے جو باتیں نفیاً بیان کی ہیں کہ ان سے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم نہیں ہو سکتی‘ اب میں ان کا جائزہ applied form میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس جائزے میں توجہ کا ارتکاز سیرت ِنبویؐپر رہے گا. میری یہ گفتگو اُصولی ہو گی‘ کسی خاص جماعت یا گروہ کا ذکر کیے بغیر میں چند باتیں عرض کروں گا. پہلی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بس تبلیغ اور تلقین کیے چلے جاؤ ‘ جب سب لوگ بدل جائیں گے تو نظام خود بخود بدل جائے گا‘حالانکہ دعوت و تبلیغ طریق ِمحمدی ؐ کا محض نقطہ ٔآغاز ہے. چنانچہ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ محض تبلیغ سے یہ کام ہو جائے گا تو وہ بہت بڑے مغالطے میں ہے. دعوت و تبلیغ سے افراد میں تبدیلی آ جاتی ہے مگر نظام تبدیل نہیں ہوا کرتا. اس میں کوئی شک نہیں کہ سلیم الفطرت لوگ دعوتِ حق کی طرف کھنچ آتے ہیں. جس طرح مقناطیس لوہ چون کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اسی طرح ہمارا دین جو دین فطرت ہے وہ بھی سلیم الفطرت انسانوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور وہ اس کی دعوت کو قبول کر لیتے ہیں. لیکن نظام کا معاملہ الگ ہے‘ اس کے ساتھ تو اصحابِ اقتدار لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں. یہ لوگ اس نظام سے خصوصی مراعات حاصل کر رہے ہوتے ہیں. یہ بگڑے ہوئے لوگ محض دعوت سے ماننے والے نہیں‘ ان کو منوانے کے لیے کچھ اور کرنا پڑے گا. سورۃ الحدیدمیں یہی بات تو کہی گئی ہے کہ:
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿٪۲۵﴾ (الحدید)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا واضح تعلیمات اور معجزات کے ساتھ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں‘ اور (ہاں) ہم نے لوہا اتارا جس کے اندر جنگ کی قوت ہے اور لوگوں کے لیے (دیگر) فائدے بھی ہیں‘تاکہ اللہ پر کھ لے کہ (لوہے کی طاقت سے) کون ہے جو غیب میں ہوتے ہوئے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے. بے شک اللہ قوی اور غالب ہے.‘‘
اس آیت ِمبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انصاف پر لوگوں کو قائم کرنا (دین غالب کرنا) گویا اللہ کی مدد کرنا ہے.علاوہ ازیں دین کے غالب نہ ہونے کا مطلب اللہ کے خلاف بغاوت ہے‘اور اس بغاوت کو فرو کر کے اللہ کے دین کو قائم کرنا اللہ کی مدد ہے. اور چونکہ اللہ کے رسولوں کا فرضِ منصبی اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے لہذا یہ رسول کی مددبھی ہے. اسی لیے رسول کی دعوت ہوتی ہے: ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ‘‘ (کون ہے میرا مددگار اللہ کے دین کے غلبے کے لیے؟).سورۃ الحدید کی مذکورہ بالا آیت قرآن حکیم کی اہم ترین آیات میں سے ہے. اس آیت سے ثابت ہوا کہ نظام بدلنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے (۷) یہاں تک کہ کسی مرحلے پر اسلحہ بھی استعمال کرناپڑے گا.
اس سلسلے میں ایک نہایت اہم بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ اگر کوئی شخص محض دعوت و تبلیغ سے نظامِ خلافت برپا کرنے کا خیال‘اس خیال کے حقیقی متضمنات کو سمجھے اور جانے بغیر رکھتا ہے تو اس سے درگزر کیا جا سکتا ہے. ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا تصور غیر شعوری طور پر ہی سہی نبی اکرم ﷺ کی توہین (نعوذ باللہ) کو متضمن ہے‘ کیونکہ یہ کام محض دعوت و تبلیغ سے اگر ممکن ہوتا تو پھر حضور ﷺ تلوار ہاتھ میں کیوں لیتے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اگر محض دعوت وتبلیغ سے یہ کام مکمل ہو سکتا تو نبی اکرم ﷺ کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ تو دُور کی بات ہے کسی کافر کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے. لیکن نظام بدلنے ہی کے لیے رحمۃٌ للعالمین کو یہ کام کرنا پڑا. اگر ایک طرف سینکڑوں کفار کا خون بہایا گیا تو دوسری طرف سینکڑوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنی پڑی . (۸) خود نبی اکرم ﷺ کا خون دامنِ احد میں جذب ہوا اور طائف کی گلیوں میں بھی بکھرا.