یہ بیعت ِجہاد اور بیعت ِتنظیم کا نقشہ ہے جو اس حدیث مبارکہ میں دیا گیا ہے. یہ پیری مریدی والی بیعت نہیں ہے جسے ہمارے ہاں بیعت ِارشاد سے موسوم کیا جاتا ہے. حسرت و افسوس کی بات ہے کہ ان واضح احادیث کی موجودگی میں بھی ہماری مذہبی جماعتوں نے بیعت کے اس نظام کو اختیار نہیں کیا. ان کے ہاں بھی وہی ممبری اور الیکشن کا نظام رائج ہے جو غیروں سے مستعار لیا گیا ہے.اس نظام میں بے شمار فتنے پیدا ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے‘ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے جو نظم عطا کیا ہے وہ تمام فتنوں کا سد باب کردیتا ہے.
ایک بار پھر سمجھ لیجیے کہ اگر واقعتا انقلاب برپا کرنا مقصود ہے تو پھر آپ کسی حکم کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی تعمیل مشکل ہے‘یا میرے حالات تعمیل ِحکم کی اجازت نہیں دیتے‘یا یہ کہ میرا ’’موڈ آف‘‘ ہے. یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے بیعت میں فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ اور فِی الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ کے الفاظ شامل کیے کہ آسانی ہو یا دشواری‘تنگی ہو یا سہولت‘طبیعت آمادہ ہو یا نہ ہو‘حکم بہرصورت بجا لانا پڑے گا. انقلابی جماعت سے تعلق رکھنے والا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں حکم یا فیصلہ اس لیے نہیں مانوں گا کہ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا‘یا مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے‘یا یہ حکم میرے نزدیک خلافِ مصلحت ہے. اجتماعی فیصلوں اور احکام میں سب کا اتفاق کرنا ضروری نہیں. فیصلہ ہو جانے کے بعد اختلاف رکھنے والوں کو بھی فیصلے پر عمل کرنا ہو گا. چنانچہ غزوۂ احد میں حضور ﷺ کی رائے بھی یہی تھی کہ مدینہ میں رہ کر حملہ آور لشکر کا مقابلہ کیا جائے اور رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی رائے بھی اتفاق سے یہی تھی‘ خواہ اس کی رائے کے اسباب کچھ بھی ہوں. حضورﷺ نے دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جوش و جذبے کو دیکھ کر فیصلہ فرما دیا کہ مقابلہ کھلے میدان میں ہو گا. یہ اجتماعی فیصلہ تھا‘ لہذا جماعتی نظم کا تقاضا یہ ٹھہرا کہ سب اسی پر عمل کریں. مگر عبداللہ بن ابی اپنے ساتھ تین سو آدمیوں کو لے کر واپس چلا گیا. اس نے کہا کہ جب ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم اپنی جانوں کو کیوں خطرے میں ڈالیں؟
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو بیعت لی گئی تھی اس میں اس فتنے کا سدباب بھی کر دیا گیا اور فِی الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ کے الفاظ کو بیعت میں شامل کر کے یہ طے کر دیا گیا کہ کسی کی طبیعت آمادہ ہو یا اس کو اپنی طبیعت پر جبر کرنا پڑے‘ اجتماعی فیصلہ تسلیم کرنا ہو گا. اطاعت ِامیر ہر حال میں کرنی ہو گی.
لفظ ’’مَنْشَط‘‘ نشاط سے بنا ہے‘ یعنی خوش دلی کی حالت میں آپ کو جو حکم دیا جائے گا اور آپ کی اپنی رائے بھی جس حکم سے ہم آہنگ ہو گی‘ آپ اس حکم یا فیصلے پر خوش دلی سے عمل کریں گے. اگر صورت ِحال برعکس ہے اور آپ کی رائے مختلف ہے تو آپ کو اپنی طبیعت پر جبر کرنا پڑے گا. ان دونوں حالتوں میں حکم یا فیصلہ بہر حال مانناہو گا.
اس حدیث ِمبارکہ میں جماعتی زندگی میں نمودار ہونے والے ایک اور بہت بڑے فتنے کا سد ِباب بھی کر دیا گیا ہے. وہ فتنہ یہ ہے کہ جس کو امیر مقرر کیا گیا ہے‘ کوئی شخص یہ سمجھ بیٹھے کہ میں اس امیر سے زیادہ اہل ہوں. مثلاً یہ خیال کرے کہ یہ شخص تو ابھی جماعت میں نیا داخل ہوا تھا‘ جماعت کے ساتھ میری وابستگی پرانی ہے‘ میری قربانیاں زیادہ ہیں. بیعت کے الفاظ میں اس فتنے کا سدباب ان الفاظ میں کر دیا گیا : وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا یعنی ہم سمع و طاعت کے پابند رہیں گے خواہ ہم پر کسی اور کو (ہمارے خیال کے مطابق بے جا) ترجیح بھی دی گئی ہو. اسی لیے آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ:
مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ (متفق علیہ)
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.‘‘
ہم سیرتِ نبویؐ میں دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غزوۂ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سردار مقرر کر دیا‘ جو آپؐ کے آزاد کردہ غلام تھے (۲۶) حالانکہ اس لشکر میں حضورﷺکے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے جو خاندانِ بنوہاشم کے چشم و چراغ ہیں. پھر غزوۂ موتہ کے شہداء کا انتقام لینے اور قیصر روم سے جنگ کے لیے آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کا جو آخری لشکر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اس کا سردار حضرت زید کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہما کو مقرر کیا. ان کے والد حضرت زیدؓ موتہ کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے. حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ بھی شامل تھے‘ مگر آنحضرتﷺ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سردار بنادیا. (۲۷) اس عملی نمونے کے علاوہ آپؐ نے ایک حکم کے ذریعے بھی ہدایت فرمائی ہے کہ اگر کوئی کن کٹا حبشی بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو.
یہ ہے وہ صاف سیدھا نظم جماعت جو ہمیں احادیث ِ نبویہ سے ملتا ہے. اس میں کوئی پیچیدگی سرے سے موجود ہی نہیں. چنانچہ ہم سیرتِ مطہرہ میں دیکھتے ہیں کہ غزوۂ احد کے موقع پر حضورﷺ نے پشت کے درّے پر پچاس تیر انداز مقرر کیے تھے. آپؐ کا حکم یہ تھا کہ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں اور پرندے ہمارا گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ہلنا. لیکن جب ابتدائی فتح ہو گئی تو تیراندازوں میں سے پینتیس نے اپنی جگہ چھوڑ دی. مقامی کمانڈر آخر وقت تک ان سے کہتے رہے کہ تم کو یہاں سے ہلنے کی اجازت نہیں. بہرحال تیر اندازوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خالد بن ولید (جو اُس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے) پہاڑی سے گھوم کر درّے کی طرف سے آئے اور مسلمانوں کی پشت پر سے حملہ کر دیا. چنانچہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی اور ستر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش کیا.
یہ اس انقلابی دعوت کا دوسرا مرحلہ ہے. پہلا مرحلہ یعنی مردانِ کار کی فراہمی دعوت ِایمان بذریعہ قرآن سے ہو گی. اس کے بعد دعوت قبول کرنے والوں کو جوڑنا ہوگا. اینٹیں علیحدہ علیحدہ نہیں ہوں گی‘ دیوار میں لگیں گی تب فصیل بنے گی. یہ اینٹیں بھی پختہ ہونی چاہئیں اور ان کو جوڑنے والا مصالحہ بھی مضبوط ہونا چاہیے. یہ مصالحہ یا مضبوط سیمنٹ نظامِ بیعت ہے جو نبیﷺ نے دیا ہے.
بہرحال نظم جماعت کے دوسرے طریقوں کو میں حرام نہیں کہتا. دوسرے طریقے بھی مباح ہیں لیکن مسنون اور ماثور طریقہ صرف بیعت ہے. یہ ہماری بڑی محرومی ہے کہ ہم نے اس طریقے کو چھوڑ کر غیروں کے طریقے مستعار لے لیے ہیں. بقول شاعر : ؎
میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں الجھ کر اکثر
تم نے اَسلاف کی عز ّت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے!
ہم نے‘الحمد للہ‘مسنون طریقے ہی کو اختیار کیا ہے. البتہ اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اب حضور ﷺ کے بعد جس کی بیعت ہو گی اس کی اطاعت مطلق نہیں ہو گی. حضورﷺ کی اطاعت البتہ مطلق تھی. آپؐ کا ہر حکم واجب العمل ہے‘اس لیے کہ آپؐ کوئی غلط حکم دے ہی نہیں سکتے تھے آپؐ معصوم تھے. آپ ؐ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اطاعت بھی مطلق نہیں ہے. اب جس کی بھی بیعت ہو گی ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کی قید کے ساتھ ہو گی. امیر کا حکم جو شریعت کے دائرے میں ہو وہی مانا جائے گا. چنانچہ ہم نے تنظیم اسلامی کے دستور میں بیعت کا جو نظام رکھا ہے اس میں ’’فِی المعروف‘‘ کا اضافہ کر کے بیعت کے الفاظ اس طرح کر دیے ہیں. ’’اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ ان دو الفاظ کے علاوہ باقی الفاظِ بیعت وہی ہیں جو اس حدیث مبارکہ میں آئے ہیں.
ہم نے انقلابی ّجدوجہد کے جن دو مراحل کا اب تک ذکر کیا ہے‘ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں ان کو خوبصورتی سے سمو دیا ہے: ؎
با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!
(نشہ ٔدرویشی کے ساتھ راہ پیدا کرو اور مسلسل جدوجہد جاری رکھو. جب پختہ ہو جاؤ تب سلطنت ِجم پر ٹوٹ پڑو.)
یہ دعوت و تبلیغ بھی درویشوں کا کام ہے. اسی طرح تربیت و تزکیہ کا عمل بھی درویشی کا عمل ہے. تنظیم کے ساتھ پوری طرح چمٹ جانا سب سے بڑی درویشی ہے‘ اس لیے کہ اس میں نفس کو سب سے زیادہ مارنا پڑتا ہے. کسی دوسرے کا حکم ماننا کوئی آسان کام ہے!! حضور ﷺ کے عہد میں ’’منافقت‘‘ کا رویہ اپنانے والوں میں ایک بڑی تعداد کی بیماری یہی تھی کہ ان کو آپؐ کی اطاعت گراں گزرتی تھی. آپؐ انہیں کہتے کہ قتال کے لیے نکلو تو وہ کہتے کہ قتال کے حکم پر مبنی کوئی آیت کیوں نہیں نازل ہو جاتی؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کا پردہ چاک کرنے کے لیے سورۂ محمدؐ میں آیت ِمحکمہ بھی نازل کر دی. مگر ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ حضورﷺ کا حکم کیوں مانیں! کہتے تھے کہ بس قرآن کی بات مانیں گے. یہ فتنہ آج بھی موجود ہے کہ ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ.‘‘ (۲۸) بات وہی ہے کہ کسی دوسرے کا حکم کیوں مانیں؟ یہ سب نفس امارہ کی شرارت ہے. اسی لیے عرض کر رہا ہوں کہ کسی کی اطاعت کرنے میں چونکہ نفس امارہ کو مارنا پڑتا ہے‘اس لیے خود کو کسی کی اطاعت کا خوگر بنانا ’’تزکیۂ نفس‘‘ کا بہت بڑا ذریعہ ہے.