جب یہ لوگ آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزر کر کندن بن جائیں‘تب نظامِ باطل کے ساتھ ٹکراؤ ہو گا. اس تصادم کے بغیر نظام نہیں بدلا کرتے. یہ انقلابی جدوجہدکا تیسرا مرحلہ ہے. اس مرحلے میں تصادم ناگزیر ہے. نظامِ باطل ٹھنڈے پیٹوں تو حق کو برداشت نہیں کرے گا. یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ تصادم کے بغیر کبھی نظام نہیں بدلا. امریکی قوم نے اپنے ہاں سے غلامی کی لعنت ختم کرنے کے لیے کتنا خون دیا! پہلے افریقہ سے آزاد لوگوں کو قیدی بنا بنا کر لایا گیا اور ان کو غلام بنا لیا گیا. جب یہ طے ہوا کہ اب آدم ذرا خود شناس اور خود نگر ہو گیا ہے اس لیے اب ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا‘ان کو آزاد کرنا ہو گا تو اس مسئلے پر پوری امریکی قوم تقسیم ہو گئی. نتیجتاً خانہ جنگی ہوئی‘اور غلامی ختم کرنے کے لیے لاکھوں انسانوں کو ہر طرح کی قربانی دینی پڑی.

بہرحال نظام بدلنے کے لیے ٹکرائو ناگزیر ہے. اس موقع پر مجھے علامہ اقبال کا ایک فارسی شعر یاد آ رہا ہے‘جو انہوں نے نجانے کس کیفیت میں لکھا ہے. کہتے ہیں : ؎

گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن!

یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ میرا پیدا کردہ یہ جہاں تمہارے ساتھ سازگاری کررہا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں‘سازگاری نہیں کر رہا ‘تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اسے درہم برہم کر دو. توڑنے اور درہم برہم کرنے کا یہ عمل کیسے ہو گا؟ اس بات کو علامہ اقبال نے اپنی نظم کے اگلے شعر میں بیان کیا ہے: ؎ 

با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِجم زن!

(نشۂ درویشی سے راہ پیدا کرو اور مسلسل جدوجہد جاری رکھو‘پھر جب پختہ ہو جاؤ تو خود کو سلطنت ِجم سے ٹکرا دو)
نبی اکرم کی مکی زندگی کا بارہ سالہ دور اس شعر کے پہلے مصرعے کی تشریح بن سکتا ہے. دیکھئے! اس دور میں دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل جاری ہے.ا س دعوتی عمل کے دوران گالیوں کے جواب میں دعائیں دی جا رہی ہیں او رپتھروں کے جواب میں پھول برسائے جا رہے ہیں. مکی دورمیں کسی جوابی کارروائی کا سراغ نہیں ملتا. اسی کے ساتھ تزکیہ کا عمل بھی جاری ہے. دن اگر تبلیغ و دعوت کے لیے وقف ہے تو راتیں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر گزاری جار ہی ہیں. سورۃ المزمل میں ارشاد ہے: 

اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ؕ (آیت ۲۰)

’’یقینا آپؐ کا رب جانتا ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان میں سے بھی ایک گروہ (کبھی) دو تہائی رات‘(کبھی) آدھی رات اور (کبھی) ایک تہائی رات سے نمازِ تہجد کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.‘‘

دعوت اور تزکیہ کے اس عمل سے گزر کر جب اہل ِحق پختہ ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کی 
base عطا فرما دیتا ہے. نبی مکرم تو اس کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے تھے‘مگر وہاں سے آپؐ ناکام لوٹے. طائف میں آپؐ پر پتھراؤ کیا گیا. جسم اطہر لہولہان ہو گیا. ایسے ایسے فقرے اور جملے سننے کو ملے جو تیروں کی مانند کلیجے کے پار ہو جانے والے تھے. چنانچہ طائف والے تو محروم رہے. مگر اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت اہل یثرب کے لیے لکھ دی.وہ مدینہ جہاں آپؐ خود تشریف بھی نہ لے گئے تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کھڑکی کھل گئی. لوگ خود چل کر آئے. پہلے سال چھ‘دوسرے سال بارہ اور تیسرے سال بہتر لوگ آئے. ان میں ستر مرد اور دوعورتیں تھیں. اس کے بعد ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا ‘ جس کے بعد تصادم کا آغاز ہوا. ہجرت اور تصادم کا یہ مرحلہ سیرتِ مطہرہ میں پختگی کے بعد آیا. انقلاب برپا کرنے والے لوگ خود پختہ سیرت و کردار کے مالک ہونے چاہئیں. وہ صداقت وامانت کے پیکر ہوں. گویا اپنی ذات پر نظام خلافت قائم کر چکے ہوں. یہ پہلا مرحلہ ہو گا‘بقول اکبر الٰہ آبادی : ؎

تو خاک میں مل اور آگ میں جل‘ جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ‘ تعمیر نہ کر!

اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ منظم ہو کر ایک امیر کے حکم پر حرکت کریں. بڑھنے کا حکم ہو تو بڑھیں‘ رکنے کا حکم ملے توو ہیں رک جائیں. اس کے بعد جاکر کہیں تصادم کا مرحلہ آتا ہے.

دو طرفہ انقلابی جدوجہد کا اگلا مرحلہ تصادم ہے. حضور  کی سیرت ِطیبہ میں یہ دو طرفہ مرحلہ تصادم کی صورت میں وقوع پذیر ہوا. اس مرحلے کا آغاز ہجرت کے بعدنبی  کی طرف سے ہوا‘ مکہ والوں کی طرف سے نہیں ہوا تھا. چنانچہ اس مرحلے میں مسلح جنگ ہوئی. سورۃ التوبۃ کی آیت کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے‘ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ (آیت ۱۱۱

’’اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں. وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں.‘‘

یہ گویا دو طرفہ مسلح تصادم ہے‘جس میں قتل کیا بھی اور قتل ہوئے بھی. ہم سیرتِ طیبہ میں دیکھتے ہیں کہ بدر کی جنگ میں ستر قریشی مارے گئے‘جب کہ تیرہ صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین موقع پر شہید ہوئے اور چودہویں صحابی جو شدید زخمی تھے وہ مدینہ جاتے ہوئے شہید ہو گئے. 
تاہم غزوۂ احد میں معاملہ بالکل برعکس ہو گیا. اس غزوہ میں ستر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوگئے.