سُورۃُ العصر کی روشنی میں

(ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک تحریر جو اوّلاً نومبر ۶۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوئی تھی)

………(۱)………
سورۃ ُالعصر قرآنِ حکیم کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے اور خوش قسمتی سے اس میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ سب کے سب اُردو میں عام طور پر مستعمل ہیں اور ایک عام اُردو دان بھی ان سے بہت حد تک مانوس ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سورت کا سرسری مفہوم تقریباً ہر شخص فوراً جان لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی دِقت محسوس نہیں کرتا، لیکن اگر غور و فکر سے کام لیا جائے اور اس کے مضامین کی گہرائیوں کا بدقّتِ نظر مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ’’سہل ممتنع‘‘ کی کیسی عظیم الشان مثال ہے اور اس کی ظاہری سادگی اور سلاست کے پردوں میں علم و حکمت کے کتنے قیمتی خزانے پوشیدہ ہیں.

واقعہ یہ ہے کہ عقائد و ایمانیات کے بیان میں اختصار کی انتہا کے باوصف مفہوم کی وسعت اور معانی کے عمق کے اعتبار سے جو مقام سورۂ اخلاص کا ہے، وہی مقام نجات اور فوزوفلاح کے عملی نہج اور طریق کار کے بیان میں اس سورت کو حاصل ہے.

اسی بناء پر مولانا حمید الدّین فراہیؒ نے اس کو ’’جوامع الکلم‘‘ میں شمار کیا ہے. اور امام شافعیؒ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ:’’اگر لوگ تنہا اسی ایک سورت پر غور کریں تو یہ ان کے لیے کافی ہو جائے.‘‘

یہ سورت کل تین آیات پر مشتمل ہے اور اس کی دوسری آیت عددی اعتبار ہی سے نہیں، بلکہ مفہوم کے لحاظ سے بھی مرکزی حیثیت کی حامل ہے. اس میں یہ دردناک حقیقت بطور کلیہ بیان ہوئی ہے کہ ’’انسان بالعموم اور بحیثیت مجموعی خسارے میں ہے.‘‘ پہلی آیت میں اس حقیقت کبریٰ کے دلائل و شواہد کو صرف ایک قسم میں سمو کر پیش کردیا گیا ہے… جب کہ تیسری آیت اُس کلیے سے ایک استثناء کو بیان کر رہی ہے. اس طرح یہ سورت واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہو گئی ہے. اس کا پہلا جزو یعنی 

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲
ایک دعویٰ اور اس کی دلیل پر مشتمل ہونے کی بنا پر انتہائی گہری علمی اہمیت کا حامل ہے. جب کہ دوسرا جزو یعنی
اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ 

عملی اعتبار سے انتہائی اہم ہے.

اس حصے میں ضمنی طور پر ایک کامیاب زندگی کے ناگزیر عملی لوازم کی تشریح ہو گئی ہے، اور اس طرح یہ حصہ ’’صراط مستقیم‘‘ اور ’’سواء السبیل‘‘ کی مختصر ترین لیکن جامع و مانع تفسیر بن گیا ہے.

سطورِ ذیل میں اس سورت کی تفسیر لکھنا مقصود نہیں ہے، اس لیے کہ راقم الحروف کا مقام یہ نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ اس کے نزدیک اس سورت کی تفسیر کا حق مولانا حمید الدین فراہیؒ نے ادا کر دیا ہے.

پیش نظر تحریر سے مقصود صرف یہ ہے کہ سورۃ کے بعض مجموعی تاثرات اور خاص طور پر اس کے جزوِثانی کے بعض مضمرات کو واضح کیا جائے، تاکہ دین کے تقاضوں کا ایک مجمل مگر جامع تصور سامنے آجائے.

………(۲)………
بحیثیت مجموعی اس سورۃ پر انذار کا رنگ غالب ہے. تبشیر کا پہلو بھی اگرچہ موجود ہے لیکن خفی اور ضمنی طور پر.
اوّلاً اس کی ابتداء انتہائی چونکا دینے والی ہے. وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ کے الفاظ صرف اپنے مفہوم کے اعتبار ہی سے خوابِ غفلت سے بیدار کر دینے والے نہیں ہیں، بلکہ ان کے انداز اور اسلوب حتیٰ کہ ان کے صوتی اثرات تک میں جھنجھوڑنے اور چونکانے کی صلاحیت موجود ہے.

ثانیاً یہاں اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ بطور ایک قاعدہ کلیہ کے بیان ہوا ہے اور اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا... الآیۃ میں ایک استثناء پیش کیا گیا ہے.
گویا انسان کا خسران ایک عالمگیر حقیقت ہے اور فلاح وکامیابی محض ایک استثنائی صورت!

اگرچہ بعینہٖ یہی صورت حال سورۃ التین میں بھی پیش فرمائی گئی کہ: ثُمَّ رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ. میں نوع انسانی کی مجموعی اور عمومی حالت بیان کی اور اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ میں مستثنیٰ افراد کا تذکرہ کیا گیا، لیکن وہاں دو چیزوں نے انذار پر تبشیر اور بیم پر رجاء کے پہلو کو غالب کر دیا ہے. ایک ثُمَّ رَدَدْنَاہُ اَسٔفَلَ سَافِلِیْنَ سے متصلاً قبل لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ. کی یقین دہانی میں پوشیدہ تسلی اور تشفی نے، اور دوسرے اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے فوراً بعد فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کی نوید جانفزا نے جو فوز وفلاح اور کامیابی و کامرانی کی مثبت ضمانت ہے. سورۃُ العصر میں نہ صرف یہ کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ. کی قسم کی کوئی تسلی و تشفی (Re-Assurance) موجود نہیں ہے، بلکہ اَجْرٌ غَیْرَ مَمْنُوْنٍ کے مثبت وعدے کی بجائے بات صرف خسران سے نجات کے تذکرے پر ختم ہو گئی ہے.

سورۃُ التین کے مقابلے میں سورۃُ العصر پر اِنذار کے رنگ کے غلبے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کہ سورۃ التین میں گراوٹ سے استثناء کے تذکرے میں ایمان کے ساتھ اس کے لوازم میں سے صرف عمل صالح کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا ہے، وہاں سورۃ العصر میں خسران سے بچاؤ کو عمل صالح کے ساتھ ساتھ ایمان کے زیادہ کٹھن اور ثقیل لوازم، یعنی تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے.

حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک قول سورۃُ التین اور سورۃُ العصر کے مضامین کے مابین ایک لطیف فرق کو واضح کرنے میں بہت ممد ہے. پہاڑی کے وعظ میں آنجناب ؑ ارشاد فرماتے ہیں:

’’تنگ دروازے سے داخل ہو، کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں. کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں.‘‘ (۷۱۳،۱۴)
اگرچہ سورۃ التین اور سورۃ العصر دونوں میں حضرت مسیح ؑکے بیان کردہ دونوں راستوں کا تذکرہ موجود ہے ،لیکن سورۃ العصر کی روشنی کا اصل ارتکاز اس چوڑی اور کشادہ شاہراہ پر ہے جس پر انسانوں کا ایک عظیم ہجوم، غول در غول، صرف بطن اور فرج کی پوجا کرتے ہوئے اور محض جبلی خواہشات کی بندگی کرتے ہوئے کچھ فرسودہ روایات کے سہارے اور زیادہ تر بھیڑ چال کے انداز میں رواں دواں ہے، اور لحظہ بہ لحظہ ابدی خسران کے درد ناک انجام سے قریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے. اس کے برعکس سورۃ التین کا نور بنیادی طور پر اس دوسری راہ پر مرتکز ہے جو اگرچہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے بہت کم ہیں، لیکن بالآخر وہ فراخی اور ابدی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے والی ہے.

ایک حساس اور باشعور انسان جس کے اندر کا نور بیدار ہو چکا ہو، جب سورۃ العصر کی روشنی میں نوعِ انسانی کی عظیم اکثریت کی مایوس کن حالت اور ان کے انجام کی تلخی کا مشاہدہ کرے گا تو لازماً اس پر مایوسی اور نااُمیدی طاری ہو گی اور عین ممکن ہے کہ وہ انسان کی فطرت اور سرشت ہی سے بدگمان ہو جائے. اس ذہنی ونفسیاتی تاریکی کے عالم میں سورۃ التین امید کی ایک کرن بن کر نمودار ہوتی ہے. اس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر گامزن چند نفسوسِ قدسیہ کی ایک جھلک اور انسانی فطرت و سرشت کی شرافت و کرامت کی شہادت سے یاس کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں ور انسان اپنے مستقبل کے بارے میں امید اور خود اپنے آپ پر ایک گونہ اعتماد محسوس کرنے لگتا ہے.

یہاں ایک اور دلچسپ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ کی عالمگیر حقیقت پر وَ الۡعَصۡرِ کے ذریعے شہادت بھی آفاق گیر پیش فرمائی گئی، اِس لیے کہ جتنی جلی وہ حقیقت ہے اسی قدر روشن اس کی دلیل ہے، لیکن لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ کی خفی حقیقت پر شہادت میں بھی زیادہ سے زیادہ اُن چند نفوس قدسیہ کو پیش کیا جا سکا جو کبھی ’’تین و زیتون‘‘ کے جھنڈوں تلے چلتے پھرتے دیکھے گئے، یا ’’طورِ سینین‘‘ کی بلندیوں پر رب الارباب سے ہم کلام پائے گئے ،یا ’’البلد الامین‘‘ میں انسانی عظمت کی شہادت دیتے ہوئے نظر آئے. علیھم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ.

………(۳)………
وَالْعَصْرِ کی چونکادینے والی صدا ایک حساس اور باشعور انسا ن کے ذہن کو فوری طور پر اپنے قریبی ماحول میں گمشدگی اور ذاتی مسائل و معاملات میں سرگردانی کی حالت سے نکال کر زمان و مکان کی وسعتوں کی جانب متوجہ کر دیتی ہے. گویا وَالْعَصْرِ کا اوّلین مفادیہ ہے کہ انسان ’’آفاق میں گم‘‘ ۱؎ ہونے کی حالت سے نکل کر آفاق اور اس کی وسعتوں کا شعوری (SUBJECTIVE) مشاہدہ کرے. ؏ 

کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ!

واقعہ یہ ہے کہ انسان کی ذہنی پستی کا سب سے بڑا مظہر یہی ہے کہ وہ اپنے قریب ترین ماحول اور ذاتی حالات و واقعات میں اُلجھ کر رہ جائے. اس حال میں انسان کی کل کائنات بس ان ہی دو چیزوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے. 
نہ وہ خود اپنی ہستی کی اندرونی و باطنی شہادتوں کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور نہ خارج کی وسیع تر آفاقی آیات کی طرف التفات کرتا ہے.

اور رفتہ رفتہ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل اُسے پہاڑ معلوم ہونے لگتے ہیں اور حقیر سی خواہشوں اور تمناؤں کے پیچھے وہ اپنے آپ کو ہلکان کر لیتا ہے. ۱؎ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (اقبالؔ) اس ذہنی و نفسیاتی حبس سے نکلنے کی دو راہیں ہیں قرآن حکیم نے بیان فرمائی ہیں. ایک خود ’’اپنے من میں ڈوب کر‘‘ حقیقت ُ الحقائق تک رسائی کی راہ، اور دوسرے آیاتِ آفاقی پر غور و فکر اور دھر و عصر کی اظہر من الشمس شہادتوں پر تدبر و تفکر کا راستہ.

سورۃ العصر اسی مؤخر الذکر راستے کی جانب رہنمائی کرتی ہے.

عصر کی جانب ادنیٰ تامل والتفات سے فوری طور پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ زمانہ جو انسان کو اپنی غفلت میں ٹھہرا ہوا معلوم ہوتا ہے حقیقتہً بڑی تیزی اور انتہائی سُرعت سے گزرا چلا جا رہا ہے. اس کی ایک دو کروٹوں ہی کی دیر ہے کہ جو کچھ آج موجود ہے وہ معدوم ہو جائے گا اور ۱؎ وقت کی بساط پر نئے کھلاڑی کھیل رچائیں گے. اس کی تیز روی اور برق رفتاری ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ اے غافل انسانو! تم، تمہارے مسائل اور تمہارے معاملات سب چشم زدن میں ختم ہو جانے والے ہیں. عمر کی مہلت تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور متاعِ عزیز بڑی سرعت سے برف کی مانند پگھلی جا رہی ہے اور کچھ دیر کی بات ہے کہ تم قصۂ ماضی بن جاؤ گے. ؏ 

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی!
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی!

پھر یہی زمانہ، جسے فلک پیر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، انسان کا سب سے بڑا واعظ و ناصح بھی ہے. اس کی گردشوں میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں کی شکل 
۱؎ ؏ ’’جوتھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرف محرمانہ‘‘ (اقبالؔ) میں عبرت اور نصیحت و موعظت کے ضخیم دفاتر محفوظ ہیں. اس نے سینکڑوں قوموں کواُبھرتے قوت پکڑتے اور پھر قعر مذلت میں گرتے دیکھا. ہزاروں حکومتیں اس کے سامنے بنیں اور بگڑیں. بیسیوں تہذیبیں وجود میں آئیں، عروج کو پہنچیں اور پھر گل سڑ کر متعفن غلاظت کا ڈھیر بن گئیں. ارب ہا ارب انسان پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور مٹی میں مل گئے. کتنوں نے فتح و ظفر مندی کے کھیل کھیلے اور کتنوں نے سروری اور ظل اللّٰہی کے سوانگ رچائے،لیکن بالآخر سب زمانے کی وسعتوں میں گم ہو گئے اور قُس بن ساعدہ جیسے لوگ بھی یہ کہتے رہ گئے کہ:

این الآباء والاجداد و این المریض والعوادو این الفراعنۃ والشدّاد واین من بنیٰ وشَیَّدو زخرف ونجّد وغرّہُ المال والولد واین من بغٰی وطغٰی و جَمَعَ فاوعٰی وقال انا ربّکم الاعلی. ۱؎

قرآن حکیم نے یہاں صرف وَالْعَصْرِ کے ایک لفظ میں جن تاریخی حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے، وہ جب تفصیل سے بیان ہوئے تو علومِ قرآنی کی ایک مستقل صنف بن گئے، جسے شاہ ولی اللہؒ نے’’تذکیربایام اللہ‘‘ کا نام دیا.

………(۴)………
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ ایک ایسی درد ناک مگر ناقابل انکار حقیقت کا بیان ہے جس کے ادنیٰ مظاہر اسی دنیا میں چاروں طرف پھیلے نظر آتے ہیں، لیکن جس ۱؎ ترجمہ: کہاں ہیں آباؤ اجداد ،کہاں ہیں مریض اور ان کی عیادت کرنے والے؟ کہاں ہیں فراعنہ اور شداد اور وہ لوگ جنہوں نے مضبوط عمارتیں بنوائیں، جنہوں نے آراستہ کیا اور سنوارا اور مال و اولاد کی محبت نے ان کو دھوکے میں رکھا. کہاں ہیں وہ جنہوں نے سرکشی کی اور اکڑے اور سمیٹا اور کہا: انا ربکم الاعلی! کی اصل تلخی موت کے بعد ظاہر ہونے والی ہے.

غنیمت ہے کہ یہاں دِلِ درد مند اور قلب حساس شاذ ہی کسی کو عطا ہوا، ورنہ ایک نہیں لاکھوں گوتم بدھ ان شدائد و مصائب کا مشاہدہ کر کے جن سے ابنائے نوع ہرآن دوچار ہیں اپنے آرام و آسائش کو تج کر جنگل میں جادھونی رماتے.
ذرا آنکھیں کھول کر گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ کرۂ ارض پر کروڑوں انسانوں کو دن بھر کی کمر توڑ دینے والی محنت و مشقت کے باوجود پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا، کتنے ہی ہیں جن کے سامنے ان کے عزیز و اقارب اور محبوب و محب دوا کے ایک گھونٹ کو ترستے دم توڑ دیتے ہیں. کتنوں کو تن ڈھانکنا نصیب نہیں ہوتا اور کتنوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ موجود نہیں! کیسے کیسے صدمے یہ انسان برداشت کرتا ہے اور کیسے دکھ اس کی جان کے لاگو بنتے ہیں، کبھی اولاد کی محبت اسے رُلاتی ہے تو کبھی مال کی تمنا اُسے تڑپاتی ہے. کبھی ناکام آرزوئیں اس کے گلے کا ہار بن جاتی ہیں تو کبھی پامال شدہ جذبات اس کے لیے سوہان رُوح بن جاتے ہیں. اربابِ نعمت کی بظاہر چمکیلی اور بھڑکدار زندگی پر نہ جانا چاہئے. ان بے چاروں کے اپنے دُکھ ہیں عوام کے دکھوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ! خوب سے خوب تر اور اعلیٰ سے اعلیٰ ترکی تلاش میں یہ دن رات مارے مارے پھرتے ہیں، اور اس دوڑ دھوپ میں جن مایوسیوں (FRUSTRATIONS) کا سامنا انہیں ہوتا ہے اور متضاد خواہشات کی رسہ کشی سے جو اُلجھنیں (CONFLICTS) انہیں در پیش ہوتی ہیں، وہی جانتے ہیں کہ ان کی بدولت کیسے کیسے الاؤ ان کے سینوں میں گرم ہوتے ہیں اور کیسے دہکتے ہوئے انگارے انکے دل و جگر کو کباب کرتے ہیں. آرام و آسائش کے سارے سامان رکھتے ہوئے انہیں نہ دن کا چین نصیب ہوتا ہے نہ رات کی نیند. یہ سب کیا ہے لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ۱؎ کی عملی تفسیر. خسرانِ انسانی کی ابتدائی منزل!!… اور انسانی المیے کا صرف پہلا مرحلہ.

اس مرحلے میں انسان کی حالت اکثر و بیشتر صرف اتنی ہی قابل رحم ہے جتنی کولہو کے کسی بیل یا باربرداری کے کسی جانور کی. زیادہ سے زیادہ یہ کہ بزعم خویش حیوانوں کے مقابلے میں انسان جسمانی تکلیف سے بڑھ کر نفسیاتی کرب اور روحانی اذیت کو بھی محسوس کرتا ہے، لیکن اس کی ٹریجڈی کا اصل نقطۂ عروج (CLIMAX) وہ ہو گا جب یہ مشقتیں اُٹھاتا، مصیبتیں جھیلتا، تکلیفیں برداشت کرتا اور صدمے سہتا اچانک اپنے پروردگار کے حضور میں محاسبے اور سوال و جواب کے لیے پیش کر دیا جائے گا: یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۲؎ تب انسان پکار اُٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا. اس مرحلے کے تصور ہی سے نسل انسانی کے گل سرسبد کانپ جاتے ہیں اور حسرت سے پکار اُٹھتے ہیں: کاش میں درختوں پر چہچہاتی چڑیا ہوتا یا سوکھی گھاس کا ایک تنکا.

اُس وقت اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ کی اصل حقیقت منکشف ہو گی اور انسانوں کی عظیم اکثریت تاسف و حسرت کے ساتھ زبانِ حال سے پکارے گی کہ: ؏ 

مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے
ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ 

………(۵)………
اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْ بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ ۱؎ ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو محنت اور مشقت میں پیدا کیا ہے.‘‘ (سورۃ البلد: ۴)

۲؎ ترجمہ: ’’اے انسان! تو تکلیفیں اور مشقتیں اٹھاتا بالآخر اپنے رب سے جا ملے گا.‘‘ (سورۃ الانشقاق: ۶بِالصَّبۡرِ 
انسان کی کامیابی اور خسران مبین سے نجات کی واحد راہ کا بیان ہے، لہذا ناگزیر ہے کہ اس آیۂ کریمہ پر مقدور بھر غور و فکر کیا جائے اور اس کے مضمرات اور مقدرات کو حتی الامکان پوری طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے.
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ سے ناقابل انقطاع تعلق کی بناء پر اس آیت پر اوّلین تدبر آیۂ ماسبق کے پس منظر ہی میں کیا جانا چاہئے. یہ دونوں آیتیں فوری طور پر جس حقیقت کو واضح کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ زندگی کی ہر وہ نہج جو ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق و تواصی بالصبر سے خالی ہو خالص زیاں کاری ہے، چاہے بظاہر دنیا کے مروجہ معیارات کے اعتبار سے کتنی ہی شاندار کامیابیوں کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہو. یہ آیات انسان کی کامیابی و ناکامی اور نفع و نقصان کا ایک بالکل نیا معیار پیش کرتی ہیں اور ان کے انسانی ذہن و شعور میں مرتسم ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ زندگی کی تمام اقدار بدل جائیں اور زندگی کی دوڑ دھوپ اور سعی و جدوجہد کے ماحصل کے بارے میں انسان کا نقطۂ نظر کاملۃً تبدیل ہو جائے.

حتیٰ کہ سیاسی قوت ہو یا معاشرتی حیثیت، مال و دولت کی فراوانی ہو یا وسائل و اسباب کی ارزانی، اونچی اونچی ملازمتیں ہوں یا مستحکم کاروبار، لمبی اور چمکیلی کاریں ہوں یا وسیع و خوشنما محلات. یہ سب اگر ان چار چیزوں کے بغیر ہوں تو نہ صرف یہ کہ محض سراب نظر آئیں بلکہ عذاب کے مقدمات معلوم ہوں.

واقعہ یہ ہے کہ انسان کی کامیابی اور ابدی خسران سے نجات کے لیے سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ اس کے نقطۂ نظر میں یہ انقلاب بالفعل واقع ہو جائے اور یہ حقیقت دل و دماغ میں اس طرح پیوست ہو جائے کہ ہرچیز کی ماہیت واقعۃً بدلی ہوئی نظر آئے. ؏ 

دیدن دگر آموز، شنید ن دگر آموز!!

دوسری انتہائی اہم حقیقت جو ان دونوں آیات کے باہمی ربط و تعلق سے ظاہر ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ چار چیزیں نجات کے ناگزیر لوازم اور فلاح انسانی کی کم از کم شرائط ہیں.اس لیے بھی کہ یہاں مقاماتِ بلند کا تذکرہ نہیں بلکہ خسارے اور نقصان سے نجات کی بات ہو رہی ہے، اور اس لیے بھی کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں جس میں بہت کچھ کبھی محض ’’زیب داستاں کے لیے‘‘ اور کبھی صرف قافیے اور ردیف کی ضرورتوں کے تحت بڑھا لیا جاتا ہے، بلکہ کلامِ الٰہی ہے جس کا ایک ایک حرف اپنی جگہ علم و حکمت کا سر چشمہ اور حقائق و معارف کا گنجینہ ہے. یہاں جو کچھ ہے، حق ہے، اور اس میں نہ کمی کی گنجائش ہے نہ بیشی کا امکان! کامیابی کی ان چار لازمی شرائط میں سے کسی ایک کو بھی ساقط کر دیا جائے تو قرآن حکیم کا ذمہ ختم ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد اپنے آپ کو کلامِ الٰہی کی بشارتوں کا مستحق سمجھنا خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ہے.

بدقسمتی سے ہمارے دورِ انحطاط میں یہ حقیقت نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو گئی ہے. ہماری ایک عظیم اکثریت محض ایمان… اور اس کے بھی صرف قانونی پہلو پر… نجات کی صدفی صد اُمید وار بنی بیٹھی ہے. جن کو ذرا زیادہ فہم و شعور عطا ہوا ہے وہ عمل صالح کی قید لگا لیتے ہیں. لیکن اہل علم کی بھی ایک بڑی تعداد تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو اعلیٰ درجات اور بلند مرتبے کی چیزیں سمجھ کر اضافی نیکیاں شمار کر بیٹھی ہے!! کاش کہ لوگ سورۃ العصر پر تدبر کریں، اور اس حقیقت کو جان لیں کہ قرآن حکیم انسانی نجات کو ایمانِ، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر چاروں سے مشروط قرار دے رہا ہے.

………(۶)………
ایک قدم آگے بڑھایئے اور توجہ کو ان چاروں الفاظ پر مرکوز کر کے ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ چار مختلف چیزیں یا کسی ایک نسخے کے چار علیحدہ علیحدہ اجزاء نہیں، بلکہ نجات کی راہ کے چار نشانات اور ایک ہی ’’صراط مستقیم‘‘ کے چار سنگہائے میل ہیں. یہ چاروں ایک جانب نجات کے لوازم ہیں اور دوسری جانب باہم دگر، لازم و ملزوم!

ایمان، عمل صالح کا پیش خیمہ ہے. عمل صالح، تواصی بالحق کا مقدمہ اور تواصی بالحق، تواصی بالصبر کا پیش رَو! ایمان صحیح ہوگا تو عمل صالح لازماً پیدا ہوگا. عمل صالح لازماً تواصی بالحق کو جنم دے گا اور… تواصی بالحق لازماً تواصی بالصبر پر منتج ہوگا.

ایمان کے سیاسی اور عمرانی پہلوؤں اور اس مسئلے سے متعلق فقہی و کلامی بحثوں سے قطع نظر ایمان کی اصل حقیقت اور ماہیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان فنس انسانی کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے، جو کائنات کے بنیادی حقائق، یعنی توحید، معاد اور رسالت کے علم سے پیدا ہوتی ہے اور قلب انسانی پر اس طور سے مستولی ہو جاتی ہے کہ انسان کے جذبات، خواہشات اور ارادے باہم توافق اور ہم آہنگی کے ساتھ اس علم کے تابع ہو جاتے ہیں، اور فی الجملہ علم اور ارادے کے مابین دوئی ختم ہو کر یگانگت پیدا ہو جاتی ہے.

علم حقیقی کے ساتھ انسانی ارادے کی مکمل یگانگت اور ہم آہنگی ہی ایمان کی اصل ہے، اور اس سے پیدا شدہ سکون اور اطمینان ایمان کا اصل ماحصل!!
رہی علم کی وہ حالت کہ: ؎

جانتا ہوں ثواب طاعت وزُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

تو جب تک یہ کیفیت برقرار رہے اور نفس انسانی تضادات 
(CONFLICTS) کی آماج گاہ بنا رہے، اس وقت تک ایمانِ حقیقی سے انسان محروم رہتا ہے. مولانا حمید الدین فراہیؒ کے الفاظ میں:

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ایمان ایک نفسانی و روحانی حالت کا نام ہے جو انسان کے تمام عقائد و اعمال پر حاوی ہے… اس کے دو رکن ہیں ایک علم اور دوسرا عمل، ان میں سے ایک کو بھی ڈھا دو گے تو اس کی پوری عمارت ڈھے جائے گی. ایک شخص اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور دین کے تمام اصول و فروع سے خوب واقف ہے، لیکن نافرمانی اور گناہ پر برابر مصر ہے 
تو اس کے لیے اس ایمان میں سے کوئی حصہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر ہے.‘‘
ظاہر ہے کہ جب ایمان کی حقیقت یہ ہے تو عمل صالح تو خود اس کی ایک فرع ہے اور اس کا ایک لازمی نتیجہ! یہاں تک کہ عمل صالح کے فقدان اور ایمان کے عملی نتائج کے عدم ظہور سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایمان ہی میں خامی ہے اور صورتِ حال وہ ہے کہ 

وَلَمَّا یُدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۱؎ ورنہ ایمان و عمل صالح کا تو ایسا ۱ ؎ ترجمہ: ’’یہ بدو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے (اے نبی!) کہہ دو تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں، رہا ایمان تو وہ تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘ (سورۃ الحجرات: ۱۴چولی دامن کا ساتھ ہے کہ ان کا ایک دوسرے کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اور ان دونوں کو ایک شمار کرنا خلاف واقعہ نہیں ہے.

’’عمل صالح‘‘ کی قرآنی اصطلاح بھی بہت غور و فکر کی مستحق ہے. ایک طرف تو قرآن حکیم اس وسیع اصطلاح میں اپنی ساری قانونی و اخلاقی تعلیمات اور پوری شریعت کو سمیٹ لیتا ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسی میں انسان کی حقیقی نشوونما اور ترقی کا راز مضمر ہے اور اسی کے ذریعے انسان کی تمام فطری صلاحیتوں اور قوتوں (POTENTIALITIES) کا صحیح رُخ پر ارتقاء ممکن ہے، مولانا فراہیؒ کے الفاظ ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے اعمالِ حسنہ کو ’’صٰلحٰت‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے،اس لفظ کے استعمال سے اس عظیم حکمت کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ درحقیقت انسان کی تمام ظاہری وباطنی، دینی ود نیاوی، شخصی و اجتماعی، جسمانی وعقلی صلاح و ترقی کا ذریعہ اعمالِ حسنہ ہی ہیں، یعنی عمل صالح وہ عمل ہوا جو انسان کے لیے زندگی ا ور نشونما کا سبب بن سکے اور جس کے ذریعے سے انسان ترقی کے اُن اعلیٰ مدارج تک پہنچ سکے جو اس کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں… اس نکتے کو دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کائنات کی اس مجموعی مشین کا ایک پُرزہ ہے. اس وجہ سے اس کے اعمال میں سے صالح اعمال صرف وہی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی اس حکمت تدبیر کے موافق ہوں جو اس نے اس کلی نظام کے لیے پسند فرمائی ہے.‘‘

گویا ایمان نام ہے انسان کے خیالات و تصورات اور خواہشات و جذبات کے علم حقیقی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا اور عمل صالح نام ہے اعمالِ انسانی کی اس مشیت کلی کے ساتھ موافقت کا جو اس کائنات میں جاری و ساری ہے اور یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو اور ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں. یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا تذکرہ ایک ساتھ کرتا ہے اور ایسے مقامات اوّل تو ہیں ہی بہت کم جہاں صرف ایمان کا ذکر کیا گیا ہو اور جہاں ایسا ہوا ہے وہاں بھی اکثر وبیشتر کوئی قرینہ ایسا ضرور موجود ہوتا ہے جس سے ایمان کے عملی تقاضوں کی جانب ازخود اشارہ ہو جائے.

مزید غور فرمایئے کہ انسان ایک متمدن حیوان ہے اور کوئی چاہے یا نہ چاہے اپنے اردگرد کے ماحول سے اس کا فعل وانفعال اور تاثیر و تاثر کا تعلق بالفعل موجود ہے. اوّلاً خود اس کے اعمال اگر واقعی صالح ہوں تو ان کے صالح اثرات اس کے خارج پر لازماً مرتب ہوں گے اور بالکل اس طرح جس طرح ایک دہکتے ہوئے انگارے سے گرمی خارج ہوتی ہے اور اپنے ماحول کو گرما دیتی ہے اور برف کی خنکی اپنے ماحول میں نفوذ کرتی ہے، انسانی اعمال کا صلاح و فساد ماحول کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا. ثانیاً ماحول میں اگر فساد موجود ہو تو لازماً ایک صالح انسان کو اس کے مفسد اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مدافعت کرنی ہوگی… ان ہی دو چیزوں کی بنیاد پر ایمان اور عمل صالح سے لازماً تواصی بالحق اور تواصی بالصبر پیدا ہوتے ہیں اور بالکل جیسے ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی باہم دگر لازم وملزوم ہیں.

مولانا فراہیؒ عمل صالح سے تواصی کے تعلق کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں:

’’اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ایمان سے عمل صالح پیدا ہوا اسی طرح عمل صالح سے تواصی وجود میں آیا، کیونکہ جس شخص کی نگاہوں میں حق محبوب ہو جائے گا اور وہ اس کے لیے صبر واستقامت کی تمام کڑیاں بھی سہنے پر آمادہ ہو گا، اس کے بارے میں لازماً اس کا علم، اس کی محبت اور اس کی غیرت ہر چیز بڑھ جائے گی اور اب صرف اسی قدر نہیں چاہے گا کہ خود ہی اس سے محبت کرے، بلکہ یہ بھی چاہے گا کہ تمام دنیا اس سے عشق کرے اور جہاں کہیں بھی حق کو مظلوم و مقہور اور باطل کو غالب و فتح مند دیکھے گا تڑپ اُٹھے گا اور ایک غیور اور شریف انسان کی طرح دوسروں کو بھی اُبھارے گا کہ حق کی حمایت کے لیے آمادہ ہوں اور اس کا یہ دوسروں کو ابھارنا بھی درحقیقت خود اس کے اپنے ہی جذبۂ حمایت کا ایک قدرتی نتیجہ ہے اور اس کا ایک حصہ ہے. پس یہاں تواصی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے عمل صالح کے ایک جزو اور اس کی توضیح کی حیثیت سے فرمایا ہے.‘‘
حق کے لغوی مفہوم کی وضاحت مولانا فراہیؒ کے الفاظ میں یہ ہے:
’’حق اصل میں توموجود اور قائم کو کہتے ہیں لیکن استعمال کے لحاظ سے اس کے معانی مختلف ہو گئے ہیں، کم از کم تین معنوں میں اس کا استعمال عام ہے:

۱) وہ بات جس کا واقع ہونا قطعی ہو.
۲) وہ بات جو عقل کے نزدیک مسلم ہو.
۳) وہ بات جو اخلاقاً فرض ہو.

گویا تواصی بالحق چھوٹے چھوٹے اخلاقی فرائض کی ادائیگی کی تلقین سے لے کر عقل کے جملہ مسلمات اور کائنات کے جملہ حقائق کی تبلیغ و اشاعت، حتیٰ کہ اس ’’دین الحق‘‘ کی شہادت اور اقامت تک پر حاوی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا. مولانا فراحیؒ کے الفاظ میں:

’’اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کی لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں، پھر ادائے حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں.‘‘

اب صرف ایک مرحلہ اور باقی ہے، یعنی یہ کہ تواصی بالحق لازماً تواصی بالصبر کو مستلزم ہے. صبر اوّل تو خود حق پر قائم رہنے کے لیے لازمی ہے اس لیے کہ حق پر خود قائم رہنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ طرح طرح کے لالچ (TEMPTATIONS) اور نفس کے مرغوبات کی کشش کے مقابلے میں انسان اپنے آپ کو تھام کر رکھے اور قسم ہاقسم کے نقصانات اور موانع و مشکلات کے مقابلے کے لیے تیار رہے، لیکن تواصی بالحق کے مقام پر آنے کے بعد تو صبر و ضبط اور ثبات و استقامت کے عظیم امتحانات سے گزرنا ناگزیر ہو جاتا ہے.

عام مشاہدے کی بات ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی سچائی کا اقرار و اعلان بھی بسا اوقات صبر و ضبط کے عظیم امتحان کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ حقیقت پر استقامت بسا اوقات ہاتھ میں دہکتے ہوئے انگارے پکڑنے کے مترادف ہو جاتی ہے، تو خود ہی تصور کیجئے کہ عقل کے جملہ مسلمات اور کائنات کے عظیم حقائق کی تبلیغ و اشاعت کیسے کچھ صبر واستقامت کی متقاضی ہوگی.

اس پر مستزاد یہ کہ ادائے حقوق کا مطالبہ کیا جائے! اور عدل و انصاف کے قیام کی دعوت دی جائے. آپ کسی کو کسی چھوٹے سے چھوٹے اخلاقی فرض کی ادائیگی کی تلقین کر کے دیکھیے کہ کیسے چہروں کے رنگ متغیر ہوتے ہیں اور تیوریاں بل کھا جاتی ہیں. کسی کو کسی کا غصب شدہ حق واپس کرنے کو کہہ کر دیکھیے کہ کیسی ناگواری (RESENTMENT) کا سامنا آپ کو کرنا پڑتا ہے. کسی مظلوم کی حمایت میں ایک جملہ منہ سے نکال کر دیکھیے کہ کیسے آپ خود بخود ظالم کے حریف اور مد مقابل بن جاتے ہیں. تو خود ہی غور فرمایئے کہ:

’’تمام اخلاقی فرائض کی ادائیگی کی تلقین، نظامِ عدل و قسط کے قیام کی دعوت اور پورے ’’دین حق‘‘ کی اقامت کا مطالبہ ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے.‘‘

یہ بات کہ حق کی دعوت دی جائے اور باطل اس کے مزاحم نہ ہو، میزان عدل و قسط کو قائم کرنے کا مطالبہ ہو لیکن ظالم اور غاصب خاموش رہیں، صرف ایک صورت ہی میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ داعیانِ حق درپردہ باطل کے ساتھ مفاہمت و مصالحت (COMPROMISE) کیے ہوئے ہوں اور پورے حق کے بجائے اس کے صرف ان اجزاء کی تبلیغ میں مصروف ہوں جو وقت کے جباروں اور قہاروں کو ’’بے ضرر‘‘ معلوم ہو. ورنہ تواصی بالحق کے تو ہر مرحلے میں ابتلانا گزیر ہے اور اس کو چے میں ہر قدم ایک نئی آزمائش اور ہر لحظہ ایک نیا امتحان لے کر آتا ہے ؎

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!

اس مرحلے پر اہل حق کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ اپنے اپنے حوصلوں اور قوتوں کا تمام اثاثہ، اور صلاحیتوں اور توانائیوں کی تمام پونجی ایک جگہ مجتمع کر دیں اور ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر، خود صبر کرتے اور دوسروں کو صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے، یعنی 
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۱؎ کی مجسم تفسیر بن کر بنیانِ مرصوص کی شکل اختیار کر لیں.اس منزل پر افراد کے قدم جمنے محال ہیں اور اجتماعیت ایک ناگزیر ضرورت کی صورت اختیار کر لیتی ہے. یہی وجہ ہے کہ حق اور صبر کی وصیت کو یہاں تفاعل کے صیغے میں بیان کیا گیا، اوروَتَوَاصَوْ بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ میں ایک جماعتی زندگی کی اہمیت کی جانب لطیف اشارہ فرما دیا گیا. مولانا فراہیؒ ۱؎ ترجمہ: ’’اے ایمان والوں صبر کرو، مقابلے میں ثابت قدم رہو اور چوکس و کمر بستہ رہو.‘‘ (آل عمران: ۲۰۰کی تفسیر سورۃ العصر سے جو اقتباس اُوپر درج کیا گیا، اس میں آپ آگے فرماتے ہیں:

’’… اور خلافت کا قیام چونکہ اطاعت امیر پر منحصر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر اطاعت بھی موجود ہو.‘‘

………(۷)………
اُوپر کی تشریحات سے یہ حقیقت دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر چار مختلف چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کا منطقی نتیجہ اور ایک سیدھی شاہراہ کی چار منزلیں ہیں. ان کے آپس کے ربط و تعلق کی دوسری مثال یہ ہے کہ ایمان دراصل ایک بیج کے مانند ہے، جس سے عمل صالح کا پودا پھوٹتا ہے اور جب یہ پودا اپنی پختگی کو پہنچتا ہے تو تواصی کے برگ و بار لاتا ہے. یہی و جہ ہے کہ اگرچہ قرآن مجید اکثر و بیشتر ایمان کے ساتھ اس کے اوّلین نتیجے یعنی عمل صالح کا تذکرہ لازماً کرتا ہے، لیکن کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ صر ف ایمان کے تذکرے سے ان چاروں کو مراد لے لیا گیا ہے جیسے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ۱؎ (الآیۃ)میں جہاں ایمان کے بھی صرف اصل الاصول یعنی ربوبیت خداوندی کے اقرار کا تذکرہ فرمایا گیا اور( ثُمَّ اسْتَقَامُوْا) میں عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سب کو سمیٹ لیا گیا اور کہیں ایمان کے بعد عمل صالح کے ذکر کے بغیر تواصی کا تذکرہ فرما دیا گیا، جیسے سورۃ البلد میں ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے فوراً بعد فرمایا گیا کہ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ 

واقعہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم صلاح و فلاح کے جس راستے کی جانب رہنمائی کرتا ہے یہ چار چیزیں اس کے لیے بمنزلۂ اساس کے ہیں اور ان ہی کی تشریح اور ان کے مدارج ومراتب کی تفصیل قرآن کے صفحات میں جابجا پھیلی ہوئی ہے. ۱؎ ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر جم گئے…الخ (حٰم ٓ السجدہ: ۳۰پھر جس طرح ایمان کے ابتدائی مراحل سے لے کر صدیقیت کے مقام تک بے شمار مدارج ہیں اور عمل صالح موٹے موٹے اعمال سے شروع ہو کر ایک گھنے اور پاٹ دار درخت کی طرح انسانی زندگی کے جملہ اطراف حتیٰ کہ اس کے بعید ترین گوشوں(REMOTE CORNERS) تک پر محیط ہو جاتا ہے، اسی طرح تواصی بالحق کے بھی مختلف مدارج اور مراتب ہیں. اس کی ابتدائی اور اوّلین صورت تواصی بالمرحمۃ کی ہے، جس کے مواقع ہر انسان کو ہر وقت ملتے ہیں اور جس کی صلاحیت سے بھی شاذ ہی کوئی انسان محروم رکھا گیا ہے. ۱؎ اس سے بلند ترمرتبے میں تواصی بالحق، دعوت الی اللہ، اور ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہی تواصی بالحق کا شجرہ طیبہ شہادتِ حق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اقامت دین کی سعی وجہد کے برگ و بار لاتا ہے، جن کا ’’ذروۂ سنام‘‘ جہاد فی سبیل اللہ ہے! صبران تمام مراحل میں انسان کا سب سے بڑا سہارا ہے اور تواصی بالحق کے اعلیٰ مدارج میں تو اس کو ایک اجتماعیت میں سمو کر تواصی بالصبر کی شکل دینے کے سوا کوئی چارۂ کار رہتا ہی نہیں.

ایمان ،عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے ان تمام مدارج تک ہر انسان کا پہنچنا یقینا محال ہے.
لیکن اگر کسی انسان کی شخصیت کو کوئی اخلاقی یا روحانی بیماری گھن کی طرح کھا نہ چکی ہو تو لازم ہے کہ ایمان کا تخم جب اس کی کشت قلب میں جم کر پھوٹے تو اس سے ۱؎ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنَ کا ذکر ہمیشہ انسان کی اخلاقی پستی کی انتہائی علامت (SYMBOL) کے طور پر کرتا ہے. عمل صالح اور تواصی بالحق کی متناسب اور متوازن شاخیں نمودار ہوں.

ا یک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی جو ایمانیات کے بھی مبادی تک ہی رسائی رکھتا ہو اور شریعت کے موٹے موٹے احکام پر عمل پیرا ہو، اگر صرف تواصی بالمرحمۃ ہی تک پہنچ پائے تو یقینا کوئی غلط بات نہیں، لیکن اگر صورت یہ ہو جائے کہ ایمانِ بالغیب کو ایمان شہودی بنانے کے لیے تو ریاضتوں اور مجاہدوں پر ایڑی چوٹی کا زور صرف ہو رہا ہو، اور عبادات میں نوافل کی کثرت کے ساتھ مستحبات تک کا اہتمام باریک بینی اور چھان پھٹک کے ساتھ ہو رہا ہو، لیکن تواصی بالحق تو سرے سے ہی نہ ہو، یا ہو بھی تو محض وعظ و نصیحت کی حد تک، تو یہ یقینا ایک غلط صورت حال ہے. اور مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی خبر دے کر، جس کی طاعت و عبادت کا یہ حال تھا کہ فرشتوں نے خدا کے حضور اس کے بارے میں گواہی دی کہ انَّہ لَمْ یَعْصِکَ طرفۃَ عینٍ (اس نے تو پلک جھپکتے جتنا وقت بھی کبھی تیری نافرمانی اور معصیت میں بسر نہیں کیا.) لیکن جس کے اس جرم عظیم نے کہ فان وجھہ لم یتمعر فی ساعۃً قط، ۱؎ (یعنی اللہ کے معاملے میں اس کی بے غیرتی اور بے حمیتی کا یہ عالم رہا کہ اس کے حدود کو پامال ہوتے دیکھ کر کبھی اس کے چہرے کا رنگ شدت غیرت سے متغیر نہ ہوا) اس کو عذابِ الٰہی کا اوّلین مستحق بنا دیا. اس معاملے کی ایک انتہائی(EXTREME) صورت ہمارے سامنے رکھ دی ہے.

پھر اسی طرح یہ صورت حال بھی یقینا غلط ہی نہیں انتہائی مہلک ہے کہ تواصی بالحق کے تو بلند ترین درجات پر فائز ہونے کی سعی کی جائے اور بزعم خویش اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت ۱؎ رواہ البیہقیدین ِ الٰہی اور قیامِ نظامِ اسلامی کی جدوجہد کی جائے، لیکن عبادات میں محض فرائض کی ادائیگی ہو اور وہ بھی مارے باندھے سے، اور ایمان کے باب میں صرف چند کلامی نظریات پر اکتفا کر لی جائے.

ان دو انتہائی صورتوں (EXTREMES) کے درمیان اور بھی جتنی غیر متوازن صورتیں پائی جائیں سب کی سب غلط ہیں اور مہلک امراض کی علامات!

سورۃ العصر انسان کے لیے نجات کی جس واحد راہ کی نشاندہی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی اپنی صلاحیت اور وسعت و ہمت کے مطابق ایمان کی گہرائیوں تک رسائی کی کوشش کرے اور جتنا جتنا اس کی حلاوت اور چاشنی سے حصہ حاصل کرتا جائے، اُسی قدرِ عمل صالح ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر پر عمل پیرا ہوتا چلا جائے.

رہا یہ مسئلہ کہ مختلف انسانوں کی صلاحیت اور وسعت کا تعین کس طرح ہو تو اگرچہ اکثر لوگوں کو شیطان نے دین میں ان کی بے عملی کے لیے یہی عذر سمجھا رکھا ہے کہ ہمارے اندر صلاحیت اور قابلیت موجود نہیں، لیکن اس کا سیدھا سا پیمانہ جو ہر شخص کے ساتھ ہر دم موجود ہے، یہ ہے کہ دنیا میں اس کی صلاحیت اور قابلیت کا ظہور کس درجے میں ہو رہا ہے. ایک ایسا بائس و مسکین شخص جس کی ہمت دنیا کی دوڑ میں بھی جواب دے چکی ہو، اگر دین میں عذر پیش کرے تو یقینا اس کا عذر قابل قبول ہے. لیکن ایسے لوگ جو دنیا کے سارے کاروبار میں دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہوں، اگر دین کے معاملے میں عدم صلاحیت اور فقدانِ قابلیت کے عذر پیش کریں تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی لائق اعتناء نہیں. 

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾ (القیامۃ:۱۴،۱۵)