اس خسرانِ عظیم اور تباہی اور بربادی سے نجات کی شرطِ اوّل ایمان ہے. ایمان کا لفظ اَمن سے بنا ہے اور اس کے لفظی معنی ہیں کسی کو امن دینا اور سکون بخشنا. لیکن اصطلاحی معنی میں ’’ل‘‘ یا ’’ب‘‘ کے صلوں (PREPOSITIONS) کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، جیسے اٰمَنَ لَہٗ یا اٰمَنَ بِہٖ اور اِس صورت میں اس کے لفظی معنی تصدیق اور یقین و اعتماد کے بن جاتے ہیں.

ایمان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ ہر وہ انسان جو عقل اور شعور کی پختگی کو پہنچ جائے لازماً یہ سوچتا ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اور کائنات کیا ہے اور اس کی ابتداء اور انتہا کیا ہے اور خود میرے سفر زندگی کی آخری منزل کون سی ہے؟؟ جن لوگوں نے فلسفہ کا کچھ بھی مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ پوری انسانیِ تاریخ کے دوران میں تمام سوچنے اور سمجھنے والے لوگ ان ہی سوالات پر غور و فکر کرتے رہے ہیں اور ان ہی کا اطمینان بخش جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں. اس لیے کہ اس کے بغیر انسان بالکل اندھیرے میں ہے کہ نہ وہ اپنی حقیقت سے آگاہ ہے، نہ کائنات کی حقیقت پر مطلع اور نہ اپنے آغاز و انجام کی خبر اسے حاصل ہے نہ کائنات کی ابتداء و انتہا کا علم، گویا بقول شاعر : ؎

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو یہ بھی کیا معلوم

اب ظاہر ہے ان سوالات کا حتمی اور یقینی جواب ہم اپنے حواس سے ہر گز معلوم نہیں کر سکتے. ہم ابھی اس عالم طبیعی 
(PHYSICAL WORLD) کی وسعتوں کے بارے میں بھی کوئی اندازہ نہیں کر پائے، کجا یہ کہ اس کی ابتداء اور انتہا کا علم ہمیں حاصل ہو. اسی طرح اس سوال کا جواب بھی کہ آیا اس دنیا میں پیدائش سے قبل بھی ہماری کوئی حقیقت تھی یا نہیں اور موت کے بعد بھی ہمارا کوئی وجود برقرار رہے گا یانہیں، حواس کے ذریعے ممکن نہیں، اس لیے کہ ہم اپنے حواس کے ذریعے نہ پیدائش سے پہلے کی دنیا میں جھانک سکتے ہیں اور نہ موت کے بعد کے عالم میں! غرض علم حقیقی کے بارے میں انسان کی مجبوری اور بے بسی کا یہ عالم ہے.

اس پس منظر میں غور کیجئے کہ تاریخ انسانی کے دوران مسلسل بہت سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ ہمارے پاس ایک خاص ذریعہ علم (وحی) ہے، جس کی بنا پر ہم حتمی اور یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ کائنات نہ ہمیشہ سے تھی، نہ ہمیشہ رہے گی‘‘ بلکہ اسے ایک خالق نے پیدا کیا ہے جو تمام صفات کمال سے بدرجہ تمام و کمال متصف ہے اور اپنی ذات و صفات میں تنہا ویکتا ہے اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا. اِسی نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری زندگی بس یہی دنیا کی زندگی نہیں، بلکہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ تمہاری اصل اور دائمی زندگی ہو گی ،اور اُس زندگی میں تمہارے ساتھ معاملہ اور سلوک اِس زندگی کے خیالات و عقائد اور افعال و اعمال کی بنیاد پر ہو گا. اور اُسی خالق و مالک نے ہمیں اس پر مامور کیا ہے کہ ہم تمہیں ان حقائق سے بھی آگاہ کر دیں اور اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ بھی بتا دیں تاکہ تم اُس اُخروی زندگی میں خسران سے بچ سکو اور فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکو.

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ان حضرات ہی کو ہم انبیاء اور رسل کے نام سے جانتے ہیں اور ان ہی کی تصدیق کا نام ایمان ہے، جس کے دو پہلو ہیں. ایک زبانی اقرار اور دوسرے قلبی یقین. یعنی زبان سے یہ گواہی دنیا کہ ہم رُسولوں کی بھی تصدیق کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات کے مطابق خدا کو بھی مانتے ہیں اور اس کی جملہ صفات کو بھی اور بعث بعد الموت، حشر و نشر، حساب کتاب اور جزا و سزا کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور جنت اور دوزخ کو بھی، اور دل میں اِن تمام باتوں پر پختہ یقین رکھنا ایمان ہے.

اب ظاہر ہے کہ ایمان، کائنات اور انسان کے بارے میں علم کا حقیقی نام ہے اور اس کے دو نتیجے لازمی ہیں:

ایک یہ کہ انسان کا اضطراب رفع ہو جائے اور اسے سکون اور اطمینان حاصل ہو جائے، اور کائنات اور خود اپنی حقیقت کا علم حاصل کرنے کی جو پیاس اس کی فطرت میں تھی اسے تسکین حاصل ہو جائے. چنانچہ یہ داخلی امن ہی ایمان کا اصل حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اصطلاح ’’امن‘‘ کے مادے سے اخذ کی گئی ہے.

دُوسرے یہ کہ چونکہ بقول سقراط ’’علم نیکی ہے اور جہالت بدی‘‘ لہذا اِس علم حقیقی کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ عمل بھی دُرست ہو جائے اور انسان بہترین اخلاق سے مزین ہو جائے اور گھٹیا اعمال و افعال کا خاتمہ ہو جائے.

یہ دوسری بات نہایت اہم ہے، اس لیے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ایمان و عمل صالح باہم لازم و ملزوم ہیں. 

آپ خود فرمایئے کہ ایک شخص تو ایسا ہے کہ جس کے نزدیک یہ کائنات ایک اتفاقی حادثے کے طور پر وجود میں آ گئی ہے اور اس کا پورا نظام خود بخود چل رہا ہے، اور ایک دوسرا شخص ہے جو اس کے برعکس یہ مانتا ہے کہ ایک علیم و خبیر ہستی اور عزیز و حکیم ذات نے ہی اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور اُسی کے چلائے اِس کا نظام چل رہا ہے، تو کیا ان دونوں کا عملی رویہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور کیا ان کے طرزِ عمل میں زمین و آسمان کا فرق واقع نہیں ہو جائے گا؟ اسی طرح ایک شخص وہ ہے جس کے نزدیک زندگی بس یہی زندگی ہے جو ہم اس عالم میں بسر کر رہے ہیں اور موت کے بعد کوئی زندگی نہیں، کوئی حساب و کتاب نہیں، کوئی پوچھ گچھ نہیں اور کوئی جزا و سزا نہیں. اور دوسرا شخص یقین رکھتا ہے کہ اصل کتاب زندگی تو موت کے بعد شروع ہو گی. یہ زندگی تو بس ایک دیباچے اور مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے، اور مرنے کے بعد ہر انسان کو اپنے ہر ہر عمل ہی نہیں ہر ہر قول بلکہ ہر ہر خیال تک کے بارے میں جوابدہی کرنی ہوگی، تو کیا ان دونوں کے عملی رویے میں مشرق و مغرب کا بُعد پیدا ہونا لازمی نہیں؟ سیدھی سی بات ہے کہ پہلے انسان کا تو فلسفہ ہی یہ بن جائے گا کہ ؏ 

بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست!

اور اِس عیش کوشی میں نہ اسے صحیح و غلط کی تمیز رہے گی، نہ جائز و ناجائز کی اور نہ حلال و حرام کی. اس کے برعکس دوسرا شخص زندگی میں ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھائے گا اور ایک احساس ذمہ داری ہر دم اس کے سر پر مسلط رہے گا. گویا ایمان کے نتیجہ میں انسان کی شخصیت میں ایک انقلاب (TRANSFORMATION) لازمی ہے.

اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں جو یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ ایمان جدا ہے اور عمل جدا، تو یہ صرف قانونی درجے میں ہے. اس لیے کہ دنیا میں کسی شخص کا مسلمان سمجھا جانا صرف اس کے اقرار باللسان پر مبنی ہے اور اس میں انسان کا عمل زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، لیکن وہ حقیقی ایمان جو عبارت ہے یقین قلبی سے لازماً عمل میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اگر عمل میں تبدیلی پیدا نہ ہو تو یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ حقیقی ایمان موجود نہیں ہے.

یہی وہ حقیقت ہے جسے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں واضح فرمایا ہے. چنانچہ آپؐ کا ایک قول مبارک ہے کہ لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلاَدِیْنَ لِمَنْ لاَ عَھْدَلَہٗ ۱؎ یعنی اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت کا وصف نہیں اور جو امانت (TRUST) کو ضائع (BETRAY) کرتا ہے، اور جس میں عہد کی پاسداری نہیں اس کا کوئی دین نہیں. غور کریں کہ کتنا پیارا ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ بیان اور کتنی دو اور دو چار کی طرح واضح ہے وہ بات جو آپؐ نے فرمائی ہے.

اسی طرح ایک موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار قسم کھا کر فرمایا: وَاللہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللہِ لاَ یُؤْمِنُ، َواللہِ لاَ یُؤْمِنُ ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے.‘‘ اس پر صحابہ ؓ نے سوال کیا: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس کی بابت ارشاد فرما رہے ہیں؟‘‘ تو آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا: (اَلَّذِیْ لاَ یَامَنُ جَارُہٗ بَوٰائِقَہٗ ) ۲؎ یعنی وہ شخص جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا ہمسایہ چین میں نہ ہو! غور فرمایئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر تاکید کے ساتھ ایمان کی نفی کلی کا اعلان فرما رہے ہیں اور وہ بھی کسی گناہ کبیرہ پر نہیں، شرک، قتل ناحق، زنا یا چوری، ڈاکے پر نہیں، بلکہ صرف ایک ایسی بات پر جسے ہم زیادہ سے زیادہ بداخلاقی پر محمول کرتے ہیں. کیا اس کے بعد بھی اس خیال کے لیے گنجائش ہے کہ ایمان اور عمل دو علیحدہ چیزیں ہیں اور باہم لازم و ملزوم نہیں؟ اس غلط فہمی کی نفی کے لیے قرآن مجید کا مستقل اسلوب یہ ہے کہ ایمان کے بعد اس کے لازمی نتیجے کے طور پر عمل صالح کا ذکر ضرور کر دیا جاتا ہے. (۱) رواہ البیہقی: عن انسؓ 

(۲) متفق علیہ: عن ابی ہریرۃ ؓ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب تک ایمان صرف اقرارٌ باللّسان کے درجے میں رہتا ہے یعنی صرف قول تک محدود ہوتا ہے، عمل اِس کے خلاف ہو سکتا ہے. اس لیے کہ قول و فعل کا تضاد تو اِس دنیا کی ایک عام چیز ہے. لیکن جب یہی ایمان تصدیقٌ بالقلب کے درجے کو پہنچ جاتا ہے، یعنی یقین بن کر دل میں اُتر جاتا ہے تو پھر عمل کا بدل جانا لازمی ہے. اس لیے کہ انسان کا عملی رویہ اِس کے یقین ہی پر مبنی ہوتا ہے. جیسے ہمیں یقین ہے کہ آگ جلا دیتی ہے تو ہم آگ میں ایک انگلی تک ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے.بلکہ یقین تو دُور کی بات ہے انسان کا عمل تو گمان سے بھی متاثر ہو جاتا ہے. جیسے ہمیں معلوم ہے کہ تمام سانپ زہریلے نہیں ہوتے ،لیکن ایک گمان سا ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ سانپ زہریلا ہو، تو اس گمان کے نتیجہ میں ہم لازماً اس سے بچتے ہیں. تو پھر اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ خدا ہے اور وہ سمیع و بصیر اور علیم و خبیر ہے، میری ہر حرکت بلکہ میری زبان سے نکلنے والا ہر ہر لفظ، بلکہ اس سے بڑ ھ کر میرے دل کا ہر ارادہ اس کے علم میں ہے اور مجھے مر کر لازماً اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے پورے کارنامۂ زندگی کی جواب دہی کرنی ہے، پھر نہ اس کی سزا و پکڑ سے کہیں بھاگ کر بچ نکلنے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی کسی سفارش یا کچھ دے دلا کر چھوٹ جانے کی کوئی صورت ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے عمل میں تبدیلی پیدا نہ ہو اور وہ گناہ اور معصیت کی زندگی بسر کرتا رہے. یہی امر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک میں بیان ہوا ہے کہ:

لاَ یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلاَ یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلاَ یَشْرَبُ الْخَمَرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ ۱؎
’’یعنی کوئی بدکار حالت ایمان میں بدکاری نہیں کرتا اور نہ کوئی چور حالت ایمان میں چوری کرتا ہے اور نہ کوئی شرابی حالت ایمان (۱) متفق علیہ: عن ابی ہریرۃ ؓمیں شراب نوشی کرتا ہے. ‘‘

بلکہ ان گناہوں کا صدور ہوتا ہی اس وقت ہے جب کسی سبب سے حقیقی ایمان دل سے زائل ہو جاتا ہے. گویا ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں. بلکہ صحیح اور درست عمل اور عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار ایمان حقیقی کا لازمی جزو ہیں. یہی وجہ ہے کہ سورۃ العصر میں ایمان کے بعد نجات کی دوسری شرط کے طور پر عمل صالح کا ذکر کر دیا گیا.