سورۃ العصر کے آخری حصہ میں دوبار جو لفظ تَواصَوا آیا ہے اس کا مصدر ’’تواصی‘‘ ہے اور یہ وصیت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں تاکید اور اصرار کے ساتھ کسی بات کی تلقین و نصیحت. پھر یہ مصدر باب تفاعل سے ہے، جس کے خواص میں ایک تو باہمی اشتراک ہے اور دوسرے شدت و مبالغہ. اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک تو یہ عمل تواصی پورے زور وشور اور پوری قوت و شدت کے ساتھ مطلوب ہے، اور دوسرے اِس مرحلے پر ایک اجتماعیت کا قیام ناگزیر ہو جاتا ہے جو باہم ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کے اُصول پر مبنی ہو.