اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تنزیل کی حکمت کیا ہے؟ یہ تھوڑا تھوڑا کر کے کیوں نازل کیا گیااور ایک ہی بار کیوں نہ نازل کر دیا گیا؟ قرآن مجید میں اس کی دو حکمتیں بیان ہوئی ہیں.
ایک تو یہ کہ لوگ شاید اس کا تحمل نہ کر سکتے .چنانچہ لوگوں کے تحمل کی خاطر تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا تاکہ وہ اس کو اچھی طرح سمجھیں‘ اس پر غور کریں اور اسے حرزِجان بنائیں اور اسی کے مطابق ان کے ذہن و فکر کی سطح بلند ہو. یہ حکمت سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۱۰۶ میں بیان کی گئی ہے:
وَ قُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا ﴿۱۰۶﴾
’’اور ہم نے قرآن کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں منقسم کر دیا تاکہ آپ تھوڑا تھوڑا کر کے اور وقفہ وقفہ سے لوگوں کو سناتے رہیں اور ہم نے اسے بتدریج اتارا.‘‘
اس حکمت کو سمجھنے کے لیے بارش کی مثال ملاحظہ کیجئے.بارش اگر ایک دم بہت موسلادھار ہو تو اس میں وہ برکات نہیں ہوتیں جو تھوڑی تھوڑی اور تدریجاً ہونے والی بارش میں ہوتی ہیں. بارش اگر تدریجاً ہو تو زمین کے اندر جذب ہوتی چلی جائے گی‘ لیکن اگر موسلا دھار بارش ہو رہی ہوتو اس کا اکثر و بیشتر حصہ بہتا چلا جائے گا. یہی معاملہ قرآن مجید کے انزال و تنزیل کا ہے.اس میں لوگوں کی مصلحت ہے کہ قرآن ان کے فہم میں ‘ان کے باطن میں‘ ان کی شخصیتوں میں تدریجاً سرایت کرتا چلا جائے. سرایت کے حوالے سے مجھے پھر علامہ اقبال کا شعر یاد آیا ہے. ؎
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جان چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!
’’(یہ قرآن) جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے ‘ اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آ جاتی ہے!‘‘
توجب یہ قرآن کسی کے اندر اس طرح اتر جاتا ہے جیسے بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے تو اس کی شخصیت میں سرایت کر جاتا ہے اور اس کے سرایت کرنے کے لیے اس کا تدریجاً تھوڑا تھوڑا نازل کیا جانا ہی حکمت پر مبنی ہے .لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات سورۃ الفرقان میں کہی گئی ہے‘ اس لیے کہ وہاں کفارِ مکّہ بالخصوص سردارانِ قریش کا باقاعدہ ایک اعتراض نقل ہوا ہے.فرمایا:
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ﴿۳۲﴾وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا ﴿ؕ۳۳﴾
’’منکرین کہتے ہیں : اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟ ہاں‘ ایسااس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو ہم اچھی طرح آپؐ کے ذہن نشین کرتے رہیں اور اس کو ہم نے بغرضِ ترتیل تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا ہے. اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے کہ) جب کبھی وہ آپ کے سامنے کوئی نرالی بات (یاعجیب سوال) لے کر آئے ‘ اُس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے آپ کو دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی.‘‘
اعتراض یہ تھاکہ یہ پورا قرآن یک دم‘ یک بارگی کیوں نہیں نازل کر دیا گیا؟ اس اعتراض میں جو وزن تھا ‘پہلے اس کو سمجھ لیجیے. انہوں نے جو بات کی درحقیقت اس سے مراد یہ تھی کہ جیسے ہمارا ایک شاعر دفعۃً پورا دیوان لوگوں کو فراہم نہیں کر دیتا‘ بلکہ وہ ایک غزل کہتا ہے‘ قصیدہ کہتا ہے‘ پھر مزید محنت کرتا ہے‘ پھر کچھ اور طبع آزمائی کرتا ہے‘ پھر کچھ اور کہتا ہے‘ اس طرح تدریجاً دیوان بن جاتا ہے‘ اسی طریقے سے محمد(ﷺ ) کر رہے ہیں. اگر یہ اللہ کا کلام ہوتا تو پورے کا پورا یک دم نازل ہو سکتا تھا. یہ تو درحقیقت انسان کی کیفیت ہے کہ پوری کتاب دفعۃً produce نہیں کر دیتا. پورا دیوان تو کسی شاعر نے ایک دن کے اندر نہیں کہا بلکہ اسے وقت لگتا ہے ‘وہ مسلسل محنت کرتا ہے‘ کچھ تکلف بھی کرتا ہے‘ کبھی آمد بھی ہو جاتی ہے ‘لیکن وہ کلام دیوان کی شکل میں تدریجاً مدوّن ہوتا ہے. تو یہ تو اسی طرح کی چیز ہے. لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚ ’’کیوں نہیںیہ قرآن اس پر یک دم نازل ہو گیا؟‘‘
اب اس کا جواب دیا گیا: کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ ’’یہ اس لیے کیا ہے تاکہ اے نبیؐ ہم اس کے ذریعے سے آپ کے دل کو تثبیت(جماؤ) عطا کریں .‘‘یعنی وہ بات جو عام انسانوں کی مصلحت میں ہے وہ خود محمد رسول اللہﷺ کے لیے بھی مصلحت پر مبنی ہے کہ آپ کے لیے بھی شاید قرآن مجید کا یک بارگی تحمل کرنا مشکل ہو جاتا. سورۃ الحشر کے آخری رکوع میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ ’’ اگر ہم پورے کے پورے قرآن کو دفعۃً کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے توتم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا‘‘. (نوٹ کیجئے کہ یہاں لفظ ’’انزال‘‘ آیا ہے) . معلوم ہوا کہ قلب محمدیؐ ‘کو جماؤ اور ٹھہراؤ عطا کرنے کے لیے اسے بتدریج نازل کیا گیا ہے. وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ’’اورہم نے اس کو بغرضِ ترتیل تھوڑا تھوڑا کر کے اُتارا ہے‘‘. ’’رتل‘‘ چھوٹے پیمانے کو‘ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کو کہتے ہیں.
اگلی آیت میں جو ارشاد ہوا اس کے دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں. ایک یہ کہ اے نبی! جو اعتراض بھی یہ ہم پر کریں گے ہم اس کا بہترین جواب آپ کو عطا کر دیں گے. لیکن دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ ایک مسلسل کشاکش ہے جو آپ کے اور مشرکین عرب کے درمیان چل رہی ہے. آج وہ ایک بات کہتے ہیں ‘اگر اسی وقت اس کا جواب دیا جائے تو وہ درحقیقت آپ کی دعوت کے لیے موزوں ہے. اگر یہ سارے کا سارا کلامِ الٰہی ایک ہی مرتبہ نازل ہو جاتا تو حالات کے ساتھ اس کی مطابقت اور ان کی طرف سے پیش ہونے والے اعتراضات کا بروقت جواب نہ ہوتااور اس کے اندر جو اثرانداز ہونے کی کیفیت ہے وہ حاصل نہ ہوتی .اس تدریج میں اپنی جگہ موزونیت ہے اور اس کی اپنی تاثیر ہے. اس اعتبار سے قرآن مجید کو تدریجاً نازل کیا گیا.