سورتوں کی پہلی تقسیم رکوعوں میں ہے. یہ تقسیم دورِ صحابہ‘ؓ اور دورِ نبویؐ میں موجود نہیں تھی. یہ تقسیمیں زمانۂ مابعد کی پیداوار ہیں. رکوعوں کی تقسیم بڑی سورتوں میں کی گئی.۳۵ سورتیں ایسی ہیں جو ایک ہی رکوع پر مشتمل ہیں ‘یعنی وہ اتنی چھوٹی ہیں کہ انہیں ایک رکعت میں آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن بقیہ سورتیں طویل ہیں. سورۃ البقرۃ میں ۲۸۵ یا ۲۸۶ آیات ہیں اور اس کے ۴۰ رکوع ہیں. حضورﷺ سے منقول ہے کہ آپؐ نے ایک رات ان تین سورتوں (البقرۃ‘ آل عمران‘النساء) کی منزل ایک رکعت میں مکمل کی ہے. لیکن یہ تو استثناء ات کی بات ہے. عام طور پر تلاوت کی وہ مقدار جو ایک رکعت میں بآسانی پڑھی جا سکتی ہوایک رکوع پر مشتمل ہوتی ہے. رکوع رکعت سے ہی بنا ہے. یہ تقسیم حجاج بن یوسف کے زمانے میں یعنی تابعین کے دور میں ہوئی ہے . لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ یہ تقسیم بڑی محنت سے معانی پر غور کرتے ہوئے کی گئی ہے کہ کسی مقام پر ایک مضمون مکمل ہو گیا اوردوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے تو وہاں اگر رکوع کر لیا جائے تو بات ٹوٹے گی نہیں.
اگرچہ ہمارے ہاں عام طور پرائمہ مساجد پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے‘ عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے ‘لہذا اکثر ایسی تکلیف دہ صورت ِحال پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایسی جگہ پر رکوع کر دیتے ہیں جہاں کلام کا ربط منقطع ہو جاتا ہے. پھر اگلی رکعت میں وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے بات معنوی اعتبار سے بہت ہی گراں گزرتی ہے. رکوعوں کی تقسیم بالعموم بہت عمدہ ہے‘ لیکن چند ایک مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ آیت یہاں سے ہٹا کررکوع ماقبل میں شامل کی گئی ہوتی یا رکوع کا نشان اس آیت سے پہلے ہوتا تو معانی اور مفہوم کے اعتبار سے بہتر ہوتا. بہرحال اکثر و بیشتر رکوعوں کی تقسیم معنوی اعتبار سے صحیح ہے جو بڑی محنت سے گہرائی میں غور کر کے کی گئی ہے.
اس کے علاوہ ایک تقسیم پاروں کی شکل میں ہے. یہ تقسیم تو اور بھی بعد کے زمانے کی ہے اور بڑی بھونڈی تقسیم ہے‘ اس لیے کہ اس میں سورتوں کی فصیلیں توڑ دی گئی ہیں.
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کا جوشِ ایما ن کم ہوا اور لوگوں نے معمول بنانا چاہا کہ ہر مہینے میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیں تب اُن کو ضرورت پیش آئی کہ اس کو تیس حصّوں میں تقسیم کیا جائے. اس مقصد کے لیے کسی نے غالباً یہ حرکت کی کہ اُس کے پاس جو مصحف موجود تھا اُس نے اس کے صفحے گن کرتیس پر تقسیم کرنے کی کوشش کی. اس طرح جہاں بھی صفحہ کٹ گیا وہیں نشان لگا دیا اور اگلا پارہ شروع ہو گیا. اس بھونڈی تقسیم کی مثال دیکھئے کہ سورۃ الحجر کی ایک آیت تیرہویں پارے میں ہے جبکہ باقی پوری سورت چودہویں پارے میں ہے. ہمارے ہاں جو مصحف ہیں ان میں آپ کو یہی شکل نظر آئے گی. سعودی عرب سے جو قرآن مجید بڑی تعداد میں شائع ہو کر پوری دنیا میں پھیلا ہے‘ یہ اب پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اسی انداز سے شائع کیا جاتا ہے جس سے کہ ہم مانوس ہیں. البتہ اہل عرب کے لیے جو قرآن مجید شائع کیا جاتا ہے اس میں رموزِ اوقاف اور علاماتِ ضبط بھی مختلف ہیں اور اس میں چودہواں جزء سورۃ الحجر سے شروع کیا جاتا ہے. گویا وہ تقسیم جو ہمارے ہاں ہے اس میں انہوں نے اجتہاد سے کام لیا ہے ‘اگرچہ پار وں کی تقسیم باقی رکھی ہے. بعض دوسرے عرب ممالک سے جوقرآن مجید شائع ہوتے ہیں. ان میں پاروں کا ذکر ہی نہیں ہے. اس لیے کہ یہ کوئی متفق علیہ چیز نہیں ہے اور زمانۂ تابعین میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ‘یہ اس سے بہت بعد کی بات ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: خَیْرُالنَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ اس حدیث کی رو سے بہترین ادوار تین ہی ہیں دورِ صحابہؓ ‘ دورِتابعین ‘پھر دورِتبع تابعین.ان تین زمانوں کو ہم ’’قرونٌ مشہودٌ لھا بِالخیر‘‘ کہتے ہیں. باقی اس کے بعد کا معاملہ حجت نہیں ہے ‘اس کی دین کے اندر کوئی مستقل او ر دائمی اہمیت نہیں ہے.