فہم قرآن کے لیے بنیادی اصول اور بنیادی ہدایات یا اشارات کے ضمن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ بات بڑی خوبصورتی سے تفہیم القرآن کے مقدمے میں کہی ہے کہ قرآن محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ کسی ڈرائنگ روم میں یا کتب خانے میں آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں. کوئی محقق یا ریسرچ سکالر ڈکشنریوں اور تفسیروں کی مدد سے اسے سمجھنا چاہے تو نہیں سمجھ سکے گا. اس لیے کہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے. مولانا مرحوم لکھتے ہیں:
’’ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہواور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں! اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُسی طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں…‘‘
قرآن مجید کی بہت سی بڑی ا ہم حقیقتیں اس کے بغیر منکشف نہیں ہوں گی‘ اس لیے کہ قرآن ایک ’’کتابِ انقلاب‘‘ (Manual of Revolution) ہے.اس قرآن نے انسانی جدوجہد کے ذریعے عظیم انقلاب برپا کیا ہے. محمدٌ رسول اللہﷺ اورآپؐ کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک حزب اللہ تھے‘ ایک جماعت اور ایک پارٹی تھے‘ انہوں نے دعوت اور انقلاب کے تمام مراحل کو طے کیا اور ہر مرحلے پر اس کی مناسبت سے ہدایات نازل ہوئیں. ایک مرحلہ وہ بھی تھا کہ حکم دیا جا رہا تھا کہ مار کھاؤ لیکن ہاتھ مت اٹھاؤ . کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ . پھر ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ حکم دے دیا گیا کہ اب آگے بڑھو اور جواب دو‘ انہیں قتل کرو . سورۃ الانفال میں ارشاد ہوا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (آیت ۳۹) ’’اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین کُل کا کُل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘.سورۃ البقرۃ میں فرمایا: وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ (آیت ۱۹۱) ’’اور اُن کو قتل کر دو جہاں کہیں تم ان کو پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے‘‘.
دونوں مراحل میں یقینا فرق ہے‘ بلکہ بظاہر تضاد ہے‘ لیکن جاننا چاہیے کہ یہ ایک ہی جدوجہد کے دو مختلف مراحل ہیں. پھر ایک داعی جب دعوت دیتا ہے تو جو مسائل اسے درپیش ہوتے ہیں ان کو ایک ایسا شخص قطعاً نہیں جان سکتا جس نے اُس کوچے میں قدم ہی نہیں رکھا ہے. اسے کیا احساس ہو گا کہ محمدٌ رسول اللہﷺ سے یہ کیوں کہا جا رہا ہے : نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾ ’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں! آپ اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہیں. اور آپ کے لیے تو بے انتہا اجر ہے‘‘. یعنی اے نبیؐ آپ محزون اور غمگین نہ ہوں. آپ ان کے کہنے سے (معاذ اللہ) مجنون تو نہیں ہو جائیں گے .ایسے الفاظ جب کسی کو کہے جاتے ہیں تو اس کا ہی دل جانتا ہے کہ اس پر کیا گزرتی ہے. اندازہ لگائیے کہ قریش مکّہ سے اس قسم کے الفاظ سن کر قلبِ محمدیؐ پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہو گی. یہ قرآن ہم پر reveal نہیں ہو سکتا جب تک ان احساسات و کیفیات کے ساتھ ہم خود دوچار نہ ہوں.جب تک کہ ہماری کیفیات و احساسات اس کے ساتھ مماثلت نہ رکھیں ہم کیسے سمجھیں گے کہ کیا کہا جا رہا ہے اور کس کیفیت کے اندر کہا جا رہا ہے.
میڈیکل کالج میں داخل ہونے والے طلبہ سب سے پہلے جس کتاب سے متعارف ہوتے ہیں وہ ’’Manual of Dissection ‘‘ ہے.اس میں ہدایات ہوتی ہیں کہ لاش کے بدن پر یہاں شگاف لگاؤ اور کھال ہٹاؤ تو تمہیں یہ چیز نظر آئے گی‘ یہاں شگاف لگاؤ تو تمہیں فلاں شے نظر آئے گی‘ اسے یہاں سے ہٹاؤ گے تو تمہیں اس کے پیچھے فلاں چیز چھپی ہوئی نظر آئے گی. اس اعتبار سے قرآن حکیم ’’Manual of Revolution ‘‘ ہے. جب تک کوئی شخص انقلابی جدوجہد میں شریک نہیں ہو گا قرآن حکیم کے معارف کا بہت بڑا خزانہ اُس کے لیے بند رہے گا. ایک شخص فقیہہ ہے‘ مفتی ہے تو وہ فقہی احکام کو ضرور اس کے اندر سے نکال لے گا. آپ کو معلوم ہو گا کہ بعض تفاسیر ’’احکام القرآن‘‘ کے نام سے لکھی گئی ہیں جن میں صرف اُن ہی آیات کے بارے میں گفتگو اور بحث ہے جن سے کوئی نہ کوئی فقہی حکم مستنبط ہوتا ہے. مثلاً حلت و حرمت کا حکم‘ کسی شے کے فرض ہونے کا حکم جس سے عمل کا معاملہ متعلق ہے.باقی تو گویا قصص ہیں‘ تاریخی حقائق و واقعات ہیں. یہاں تک کہ قصۂ آدم و ابلیس جو سات مرتبہ قرآن میں آیا ہے‘ یا ایمانی حقائق کے لیے جو دلائل و براہین ہیں ان سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی‘ بلکہ صرف احکام القرآن جو قرآن کا ایک حصہ ہے‘ اسی کو اہمیت دی گئی ہے.
قرآن کے تدریجاً نزول کا سبب یہ ہے کہ صاحبِ قرآن ﷺ کی جدوجہد کے مختلف مراحل کو سمجھا جائے ‘ورنہ فقہی احکام تو مرتب کر کے دیے جا سکتے تھے ‘جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دیے گئے تھے. ’’احکامِ عشرہ ‘‘تختیوں پر کندہ تھے جو موسٰی ؑکے سپرد کر دیے گئے.
لیکن محمدٌ رسول اللہﷺ کی انقلابی جدوجہد جس جس مرحلے سے گزرتی رہی قرآن میں اس مرحلے سے متعلق آیات نازل ہوتی رہیں. تنزیل کی ترتیب کے اندر مضمر اصل حکمت یہی تو ہے کہ آنحضورﷺ کی جدوجہد‘ حرکت اور دعوت کے مختلف مراحل سامنے آ جاتے ہیں. اب بھی قرآن کی بنیاد پر اور منہج انقلابِ نبویؐپر جو جدوجہد ہو گی اسے ان تمام مراحل سے ہو کر گزرنا ہو گا. چنانچہ کم سے کم یہ توہو کہ اس جدوجہد کو علمی طور پر فہم کے لیے انسان سامنے رکھے. اگر علمی اعتبار سے سیرت النبیؐ ‘ کا خاکہ ذہن میں موجود نہ ہو تو فہم کسی درجے میں بھی حاصل نہیں ہو گا. فہمِ حقیقی تو اُسی وقت حاصل ہو گا جب آپ خود اس جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور وہی مسائل آپ کو پیش آ رہے ہیں تو اب معلوم ہو گاکہ یہ مقام اور مرحلہ یا مسئلہ وہ تھا جس کے لیے یہ ہدایتِ قرآنی آئی تھی.