اگلی بات یہ سمجھئے کہ نبی اکرمﷺ کی رسالت کا اصل ثبوت یا بالفاظِ دیگر آپؐ ‘ کا اصل معجزہ ‘بلکہ واحد معجزہ قرآن حکیم ہے. یہ بات ذرا اچھی طرح سمجھ لیجیے. ’’معجزہ‘‘ کالفظ ہمار ے ہاں بہت عام ہو گیا ہے اور ہر خرقِ عادت شے کو معجزہ شمار کیا جاتا ہے. معجزہ کے لفظی معنی عاجز کر دینے والی شے کے ہیں. قرآن مجید میں ’’عجز‘‘ مادہ سے بہت سے الفاظ آتے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں اصطلاح کے طور پر اس لفظ کا جو اطلاق کیا جاتا ہے وہ قرآن حکیم میں مستعمل نہیں ہے‘ بلکہ اللہ کے رسولوں کو جو معجزات دیے گئے انہیں بھی آیات کہا گیا ہے.انبیاء و رُسل اللہ تعالیٰ کی آیات یعنی اللہ کی نشانیاں لے کر آئے.
اس اعتبار سے معجزہ کا لفظ جس معنی میں ہم استعمال کرتے ہیں‘ اس معنی میں یہ قرآن مجید میں مستعمل نہیں ہے. البتہ وہ طبیعی قوانین (Physical Laws) جن کے مطابق یہ دنیا چل رہی ہے ‘ اگر کسی موقع پر وہ ٹوٹ جائیں اور ان کے ٹوٹ جانے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی مشیتِ خصوصی ظاہر ہو تو اسے خرقِ عادت کہتے ہیں .مثلاً قانون تو یہ ہے کہ پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے‘ لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے عصا کی ضرب لگائی اور سمندر پھٹ گیا‘یہ خرقِ عادت ہے ‘یعنی جو عادی قانون ہے وہ ٹوٹ گیا. ’’خرق‘‘ پھٹ جانے کو کہتے ہیں‘ جیسے سورۃ الکہف میں یہ لفظ آیا ہے ’’خَرَقَہَا‘‘ یعنی اس اللہ کے بندے نے جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ‘کشتی میں شگاف ڈال دیا.پس جب بھی کوئی طبیعی قانون ٹوٹے گا تو وہ خرقِ عادت ہو گا. اللہ تعالیٰ ان خرقِ عادت واقعات کے ذریعے سے بہت سے قوانینِ قدرت کو توڑ کر اپنی خصوصی مشیت اور خصوصی قدرت کا اظہار فرماتا ہے. اور یہ بات ہمارے ہاں مسلّم ہے کہ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے بھی جن کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہے کرتا ہے‘ لیکن اصطلاحاً ہم انہیں کرامات کہتے ہیں. خرقِ عادت یا کرامات اپنی جگہ پر ایک مستقل مضمون ہے.
معجزہ بھی خرقِ عادت ہوتا ہے‘ لیکن رسول کا معجزہ وہ ہوتا ہے جو دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے اور جس میں تحدّی (challenge) بھی موجود ہو.یعنی جسے رسول خود اپنی رسالت کے ثبوت کے طور پر پیش کرے اور پھر اُس میں مقابلے کا چیلنج دیا جائے. جیسے حضرت موسی ٰعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات عطا کیے ان میں ’’یدِ بیضا‘‘ اور ’’عصا‘‘ کی حیثیت اصل معجزے کی تھی. ویسے آیات اور بھی دی گئی تھیں جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے : وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ’’اور بیشک ہم نے موسیٰ ؑکو نو روشن نشانیاں دیں‘‘. مگر یہ اُس وقت کی بات ہے جب آپؑ ابھی مصر کے اندر تھے. پھر جب آپؑ مصر سے باہر نکلے تو عصا کی کرامات ظاہر ہوئیں کہ اس کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا‘اس کی ضرب سے چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے. یہ تمام چیزیں خرقِ عادت ہیں ‘لیکن اصل معجزے دو تھے جن کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ میری رسالت کا ثبوت ہے.
جب آپؑ فرعون کے دربار میں پہنچے اور آپ نے اپنی رسالت کی دعوت پیش کی تو دلیلِ رسالت کے طور پر فرمایا کہ میں اس کے لیے سند (سُلۡطٰنٌ مُّبِیۡنٌ ) بھی لے کر آیا ہوں. فرعون نے کہا کہ لاؤ پیش کروتو آپؑ نے یہ دومعجزے پیش کیے. یہ دو معجزے جواللہ کی طرف سے آپؑ کو عطا کیے گئے ‘ آپؑ کی رسالت کی سند تھے. اس میں تحدّی بھی تھی. لہذا مقابلہ بھی ہوا اور جادوگروں نے پہچان بھی لیا کہ یہ جادو نہیں ہے‘ معجزہ ہے. معجزہ جس میدان کا ہوتا ہے اسے اُسی میدان کے افراد ہی پہچان سکتے ہیں. جب جادوگروں کا حضرت موسٰی علیہ السلام سے مقابلہ ہوا تو عام دیکھنے والوں نے تو یہی سمجھا ہو گا کہ یہ بڑا جادوگر ہے اور یہ چھوٹے جادوگر ہیں‘ اس کا جادو زیادہ طاقتور نکلا‘ اس کے عصا نے بھی سانپ اور اژدھا کی شکل اختیار کی تھی اور ان جادوگروں کی رسیوں اور چھڑیوں نے بھی سانپوں کی شکل اختیار کر لی تھی‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کا بڑا سانپ باقی تمام سانپوں کو نگل گیا. یہی وجہ ہے کہ مجمع ایمان نہیں لایا‘ لیکن جادوگر تو جانتے تھے کہ اُن کے فن کی رسائی کہاں تک ہے‘ اس لیے اُن پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ یہ جادو نہیں ہے‘ کچھ اورہے.
اسی طرح قرآن حکیم کے معجزہ ہونے کا اصل احساس عرب کے شعراء‘ خطیبوں اور زبان دانوں کو ہوا تھا. عام آدمی نے بھی اگرچہ محسوس کیا کہ یہ خاص کلام ہے‘ بہت پُرتأثیر اور میٹھا کلام ہے‘ لیکن اس کا معجزہ ہونا یعنی عاجز کر دینے والا معاملہ تواسی طرح ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں بار بار چیلنج دیاگیا کہ اس جیسا کلام پیش کرو. اس اعتبار سے جان لیجیے کہ رسول اللہﷺ کا اصل معجزہ قرآن ہے.
آپﷺ کے خرقِ عادت معجزات تو بے شمار ہیں. شقّ قمر قرآن حکیم سے ثابت ہے‘ لیکن یہ آپﷺ نے دعوے کے ساتھ نہیں دکھایا ‘نہ ہی اِس پر کسی کو چیلنج کیا‘ بلکہ آپؐ سے جو مطالبے کیے گئے تھے کہ آپؐ یہ یہ کر کے دکھایئے‘ اُن میں سے کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ہاں منظور نہیں ہوئی. اللہ چاہتا تو اُن کا مطالبہ پورا کرا دیتا ‘لیکن اُن مطالبوں کو تسلیم نہیں کیا گیا. البتہ خرقِ عادت واقعات بے شمار ہیں. جانوروں کا بھی آپؐ ‘کی بات کو سمجھنا اور آپؐ سے عقیدت کا اظہار کرنا بہت مشہور ہے. حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ ‘اونٹوں کو حضورﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے نحر کیا تھا. قطار میں سو اونٹ کھڑے کیے گئے تھے. روایات میں آتا ہے کہ ایک اونٹ جب گرتا تھا تو اگلا خود آگے آ جاتا تھا. اسی طرح ’’ستونِ حنانہ‘‘ کا معاملہ ہوا. حضورﷺ مسجد نبویؐ میں کھجور کے ایک تنے کا سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ‘مگر جب اِس مقصد کے لیے منبر بنادیا گیا اور آپؐ پہلی مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے تو اُس سوکھے ہوئے تنے میں سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رورہا ہو‘ اسی لیے تو اسے ’’ حنّانہ‘‘ کہتے ہیں. ایسے ہی کئی مواقع پر تھوڑا کھانا بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا. اِن خرقِ عادت واقعات کو بعض عقلیت پسند (Rationalists) اور سائنسی مزاج کے حامل لوگ تسلیم نہیں کرتے. پچھلے زمانے میں بھی لوگ ان کا انکار کرتے رہے ہیں. اس پر مولانا روم نے خوب فرمایا ہے کہ : ؎
فلسفی کو منکرِ حنّانہ است
از حواسِ انبیا بیگانہ است!
بہرحال خرقِ عادت واقعات حضورﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بہت ہیں. (تفصیل دیکھنا ہو تو ’’سیرت النبیؐ ‘‘ از مولانا شبلی کی ایک ضخیم جلد صرف حضورﷺ کے خرقِ عادت واقعات پر مشتمل ہے) لیکن جیسا کہ اوپر گزرا ‘معجزہ دعوے کے ساتھ اور رسالت کے ثبوت کے طور پر ہوتا ہے.
قرآن مجید میں ا س کی دوسری مثال حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آئی ہے کہ آپؑ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں مُردوں کو زندہ کر کے دکھا رہا ہوں. میں گارے سے پرندے کی صورت بناتا ہوں اور اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑتا ہوا پرندہ بن جاتا ہے. خرقِ عادت کا معاملہ تو غیر نبی کے لیے بھی ہو سکتا ہے. اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لیے بھی اس طرح کے حالات پیدا کر سکتا ہے. اُن کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے اظہار کے لیے کرامات کا ظہور ہو سکتا ہے. یہ چیزیں بعید نہیں ہیں‘ لیکن انبیاء کی کرامات کو عرفِ عام میں ’’معجزات‘‘ کہا جاتا ہے اور غیرانبیاء اور اولیاء کے لیے ’’کرامات‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے. لیکن معجزہ وہ ہے جسے اللہ کا رسول دعوے کے ساتھ پیش کرے اور چیلنج کرے.
یہ بات کہ قرآن مجید ہی حضورﷺ کا اصل معجزہ ہے ‘دو اعتبارات سے قرآن میں بیان کی گئی ہے. ایک مثبت اندازہے‘ جیسے سورۂ یٰسٓ کی ابتدائی آیات میں فرمایا: یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ ’’یٰسٓ . قسم ہے قرآن حکیم کی (اور قسم کا اصل فائدہ شہادت ہوتا ہے‘ یعنی گواہ ہے یہ قرآن حکیم) کہ یقینا (اے محمدﷺ ) آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘. خطاب بظاہر حضورﷺ سے ہے ‘حالانکہ حضورؐ ‘ کو یہ بتانا مقصود نہیں ہے‘ بلکہ مخاطبین یعنی اہل عرب اور اہل مکّہ کو سنایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن شاہد ہے‘ یہ ثبوت ہے‘ یہ دلیلِ قطعی ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘ یہ قرآن پکار پکار کر محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کا ثبوت پیش کر رہا ہے.
اس کے علاوہ قرآن حکیم کے چار مقامات اور ہیں جن میں یہی آیت اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ مقدر ہے ‘اگرچہ بیان نہیں ہوئی . سورۂ صٓ کا آغاز ہوتا ہے : صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ ﴿۲﴾ ’’ص‘ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت (یاد دہانی) والا ہے. لیکن وہ لوگ کہ جو منکر ہیں‘ گھمنڈ اور ضد میں پڑے ہوئے ہیں‘‘.یہاں ’’صٓ‘‘ ایک حرف ہے ‘لیکن اس سے آیت نہیں بنی ‘ جبکہ ’’یٰسٓ‘‘ ایک آیت ہے. سورۂ صٓ کی پہلی آیت قسم پر مشتمل ہے. ’’بَلْ‘‘ سے جو دوسری آیت شروع ہو رہی ہے یہ ثابت کر رہی ہے کہ مُقسَم علیہ (جس چیز پر قسم کھائی جا رہی ہے) یہاں محذوف ہے اور وہ (اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ) ہے. گویا کہ معناً اسے یوں پڑھا جائے گا: صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا... . اسی طرح سورۂ قٓ میں ہے: قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ....
ایسے ہی دو سورتیں الزخرف اور الدخان ’’حٰمٓ ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں. ان کی پہلی دو آیات بالکل ایک جیسی ہیں : حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ . پہلی آیت حروفِ مقطعات پر اور دوسری آیت قَسم پر مشتمل ہے. اس کے بعد مُقسَم علیہ (اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ) محذوف ماننا پڑے گا. گویا: حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾ اور: حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ . یہ ایک اسلوب ہے کہ محمدٌ رسول اللہﷺ کی رسالت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی قسم کھائی گئی‘ یعنی قرآن کی گواہی اور شہادت پیش کی گئی . یہ اِس بات کوکہنے کا ایک اسلوب ہے کہ حضورﷺ کی رسالت کا اصل ثبوت یا آپؐ ‘ کا اصل معجزہ قرآن ہے.