اب اس ضمن میں تیسری ذیلی بحث یہ ہوگی کہ قرآن مجید کس کس اعتبار سے معجزہ ہے. یہ مضمون اتنا وسیع اور اتنا متنو ّع الاطراف ہے کہ ’’وجوہِ اعجاز القرآن‘‘ پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں. ظاہر بات ہے اس وقت اِس کا احاطہ مقصود نہیں ہے‘ صرف موٹی موٹی باتیں ذکر کی جاتی ہیں. 

اصل شے تو اِس کی تأثیر قلب ہے کہ یہ دل کو لگنے والی بات ہے. اس کا اصل اعجاز یہی ہے کہ یہ دل کو جا کر لگتی ہے بشرطیکہ پڑھنے والے کے اندر تعصب‘ ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو اور اسے زبان سے اتنی واقفیت ہو جائے کہ براہِ راست قرآن اس کے دل پر اتر سکے. یہ قرآن کے اعجاز کا اصل پہلو ہے. لیکن اضافی طور پر جان لیجئے کہ جس وقت قرآن نازل ہوا اُس وقت کے اعتبار سے اس کے معجزہ ہونے کا نمایاں اور اہم تر پہلو اِس کی ادبیت‘ اِس کی فصاحت و بلاغت ‘ا س میں الفاظ کا انتخاب‘ بندشیں اور ترکیبیں‘ اس کی مٹھاس اور اس کا صوتی آہنگ ہے. یہ درحقیقت نزول کے وقت قرآن کے معجزہ ہونے کا سب سے نمایاں پہلو ہے.

یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ہر رسول کو اُسی طرز کا معجزہ دیا گیا جن چیزوں کا اُس کے زمانے میں سب سے زیادہ چرچا اور شغف تھا. حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو عام تھا لہذا مقابلے کے لیے آپؑ کو وہ چیزیں دی گئیں جن سے آپؑ جادوگروں کو شکست دے سکیں. حضور نے جس قوم میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اُس قوم کا اصل ذوق قدرتِ کلام تھا. وہ کہتے تھے کہ اصل میں بولنے والے تو ہم ہی ہیں‘ باقی دنیا تو گونگی ہے. ان کی زبان دانی کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی پسند کی اشیاء کے نام رکھنا شروع کرتے تو ہزاروں نام رکھ دیتے. چنانچہ عربی میں شیر اور تلوار کے لیے پانچ پانچ ہزار الفاظ ہیں. گھوڑے اور اونٹ کے لیے لاتعداد الفاظ ہیں. یہ اُن کی قادر الکلامی ہے کہ کسی شے کو اُس کی ہر ادا کے اعتبار سے نیا نام دے دیتے. گھوڑا اُن کی بڑی محبوب شے ہے‘ لہذا اُس کے نامعلوم کتنے نام ہیں. شعر و شاعری میں ان کے ذوق و شوق کا یہ عالَم تھا کہ اُن کے ہاں سالانہ مقابلے ہوتے تھے تاکہ اس سال کے سب سے بڑے شاعر کا تعین کیا جائے. شعراء اپنے اپنے قصیدے لکھ کر لاتے تھے‘ مقابلہ ہوتا تھا. پھر جب فیصلہ ہوتا تھا کہ کس کا قصیدہ سب پر بازی لے گیاہے تو باقی تمام شعراء اس کی عظمت کے اعتراف کے طور پر اُس کو سجدہ کرتے تھے. پھر وہ قصیدہ خانۂ کعبہ کی دیوارپر لٹکا دیا جاتا تھا کہ یہ ہے اس سال کا قصیدہ. چنانچہ اس طرح کے سات قصیدے خانہ کعبہ میں آویزاں کیے گئے تھے جنہیں ’’سَبْعَۃ مُعَلَّقَۃ‘‘ کہا جاتا تھا. سبعۃ معلقۃ کے آخری شاعر حضرت لبید رضی اللہ عنہ تھے جو ایمان لے آئے. ایمان لانے کے بعد انہوں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا کہ اے لبیدؓ ! اب آپ شعر کیوں نہیں کہتے؟ تو جواب میں انہوں نے بڑا پیارا جملہ کہا کہ ’’اَبَعْدَ الْقُرْآنِ؟‘‘ یعنی کیا قرآن کے نزول کے بعد بھی؟ اب کسی کے لیے کچھ کہنے کا موقع باقی ہے؟ قرآن کے آ جانے کے بعد کوئی اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی کوشش کر سکتا ہے؟ گویا زبانیں بند ہو گئیں‘ اُن پرتالے پڑ گئے‘ ملک الشعراء نے شعر کہنے چھوڑ دیے. 

جن لوگوں کی مادری زبان عربی ہے وہ آج بھی قرآن کے اِس اعجاز کو محسوس کر سکتے ہیں. غیرعرب لوگوں کے لیے اس کو محسوس کرنا ممکن نہیں ہے. اگر کوئی اپنی محنت سے عربی ادب کے اندر مولانا علی میاں (۱کی سی مہارت حاصل کر لے تو وہ واقعتا اس کو محسوس کر سکے گا اور اس کی تحسین کر سکے گا کہ فصاحت و بلاغت میں قرآن کا کیا مقام ہے. ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے‘ البتہ اس کا صوتی آہنگ ہم محسوس کر سکتے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی قراء ت کے اندر ایک معجزانہ تأثیر ہے جو قلب کے اندر عجیب کیفیات پیدا کر دیتی ہے. قرآن کا صوتی آہنگ ہماری فطرت کے تاروں کو چھیڑتا ہے. قرآن کی یہ معجزانہ تأثیر آج بھی ویسی ہے جیسی نزولِ قرآن کے وقت تھی. اس میں مرورِ ایام سے کوئی فرق واقع نہیں ہوا.

قرآن کی فصاحت و بلاغت‘ اس کی ادبیت‘ عذوبت اور اس کے صوتی آہنگ کی معجزانہ تأثیر پر مستزاد عہد حاضر میں قرآن کے اعجاز کے ضمن میں جو چیزیں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں اُن میں سے ایک چیز تو وہ ہے جس کا قرآن مجید نے بڑے صریح الفاظ میں ذکر کیا ہے :

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ 
(حمٓ السجدۃ:۵۳)
’’ہم عنقریب انہیں اپنی آیات دکھائیں گے آفاق میں بھی اور اُن کی اپنی جانوں میں بھی یہاں تک کہ یہ بات اُن پر واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن حق ہے.‘‘

اِس آیت مبارکہ میں علمِ انسانی کے دائرہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدید اکتشافات وانکشافات کی طرف اشارہ ہے. یہ آیاتِ آفاقی ہیں. فرانسیسی سرجن ڈاکٹر مورس بکائی کا پہلے بھی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد اُس نے کہا کہ میرا دل اس پر مطمئن ہو گیا ہے کہ اس قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جسے سائنس نے غلط ثابت کیا ہو. البتہ اُس دَور میں جبکہ انسان کا اپنا ذہنی ظرف وسیع نہیں ہوا تھا‘ علومِ انسانی اور معلوماتِ انسانی کا دائرہ محدود تھا ‘اس وقت سائنسی اشارات کی حامل آیاتِ قرآنیہ کا کیا مفہوم سمجھا گیا‘ وہ بات اور ہے. کلام اللہ ہونے کے اعتبار سے اصل اہمیت تو (۱) مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی جو اب وفات پا چکے ہیں‘ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَـہٗ وَیَرْفَعُ دَرَجَاتِہٖ فِی الْجَنَّۃِ. آمین! قرآن کے الفاظ کو حاصل ہے. ڈاکٹر مورس بکائی نے قرآن کا تورات کے ساتھ تقابل کیا ہے! تورات سے مراد Old Testament ہے. اناجیلِ اربعہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں‘اُن میں تو کئی چیزیں ایسی ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں. اناجیل میں زیادہ تر اخلاقی مواعظ ہیں یا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح حیات ہیں.تورات میں یہ مباحث موجود ہیں کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی‘ اللہ نے کیسے اسے بنایا. مختلف سائنسی phenomena اس میں موجود ہیں. 

آپ کو معلوم ہے کہ فزکس میں آج سب سے زیادہ اہم موضوع جس پر تحقیق ہو رہی ہے ‘یہی ہے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی ‘ ابتدائی حالات کیا تھے اور بعد ازاں ان میں کیا تبدیلیاں ہوئیں.ڈاکٹر مورس بکائی نے اس اعتبار سے محسوس کیا کہ تورات میں تو ایسی چیزیں ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں.

اس لیے کہ اصل تورات تو چھٹی صدی قبل مسیح ہی میں گم ہو گئی تھی. بخت نصر کے حملے میں یروشلم کو تہس نہس کر دیا گیا اور ہیکلِ سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ اس کی بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں اور یروشلم کے بسنے والے چھ لاکھ کی تعداد میں قتل کر دیے گئے جبکہ بخت نصر چھ لاکھ کو قیدی بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے اپنے ہمراہ بابل لے گیا. چنانچہ یروشلم میں ایک متنفس بھی باقی نہیں رہا. آپ اندازہ کریں‘ اگر یہ اعداد و شمار صحیح ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے بھی چھ سو سال قبل یعنی آج سے ۲۶۰۰ برس قبل یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا اور اس شہر پر کیا قیامت گزری ہو گی! اس کے بعد سے وہ اصل تورات دنیا میں نہیں ہے.موسیٰ علیہ السلام کو جو احکامِ عشرہ (Ten Commandments) دیے گئے تھے وہ پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے تھے. یہ تختیاں بھی لاپتہ ہو گئیں اور باقی تورات کا وجود بھی باقی نہ رہا.

قرآن حکیم میں ’’صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی‘‘ کا ذکر ہے. موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے پانچ ہیں جو عہد نامۂ قدیم (Old Testament) کی پہلی پانچ کتابیں ہیں.سانحۂ یروشلم کے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد لوگوں نے تورات کو اپنی یادداشتوں سے مرتب کیا. چنانچہ اُس وقت کی نوعِ انسانی کی ذہنی اور علمی سطح جو تھی وہ اِس پر لازمی طور پر اثرانداز ہوئی . ڈاکٹر مورس بکائی کے علاوہ میں ڈاکٹر کیتھ ایل مور کا حوالہ بھی دے چکا ہوں کہ وہ قرآن حکیم میں علمِ جنین سے متعلق اشارات پا کر کس قدر حیران ہوا کہ یہ معلومات چودہ سو برس پہلے کہاں سے آگئیں! فزیکل سائنسز کے مختلف فیلڈ ہیں‘ ان میں جیسے جیسے علمِ انسانی ترقی کرتا جائے گا یہ بات مزید مبرہن ہوتی چلی جائے گی کہ یہ کلام حق ہے اور یہ کلام مظاہرِ طبیعی کے اعتبار سے بھی حق ثابت ہو رہا ہے. یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور محمد  اللہ کے رسول ہیں.

عہد حاضر کے اعتبار سے قرآن حکیم کے اعجاز کا دوسرا اہم تر پہلو اِس کی ہدایتِ عملی ہے. اس میں انفرادی زندگی سے متعلق بھی مکمل ہدایات ہیں اور انسانی اخلاق و کردار اور انسان کے رویہ کے بارے میں بھی پوری تفصیلات موجود ہیں. انفرادی زندگی سے متعلق یہ تمام چیزیں سابقہ انبیاء کی تعلیمات میں بھی موجود ہیں. یہ اخلاقی اقدار ویسے بھی فطرتِ انسانی کے اندر موجود ہیں. قرآن کا اپنا کہنا ہے : 
فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس) یعنی نفسِ انسانی کو الہامی طور پر یہ معلوم ہے کہ فجور کیاہیں اورتقویٰ کیا ہے. پرہیزگاری کسے کہتے ہیں اور بدکاری کسے کہتے ہیں. البتہ قرآن حکیم کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں عدل و قسط پر مبنی اجتماعی نظام دیا گیا ہے جس میں انتہائی توازن رکھا گیا ہے.

انسان غور کرے تو معلوم ہوگا کہ نوعِ انسانی کو تین بڑے بڑے عقدہ ہائے لاینحل (dilemmas) درپیش ہیں جو توازن کے متقاضی ہیں اور ان میں عدم توازن سے انسانی تمدن فساد اور بگاڑ کا شکار ہے.ان میں پہلا عقدۂ لاینحل یہ ہے کہ مَرد اور عورت کے حقوق و فرائض میں کیا توازن ہے؟ دوسرا یہ کہ سرمایہ اور محنت کے مابین کیا توازن ہے؟ پھر تیسرا یہ کہ فرد اور ریاست یا فرد اور اجتماعیت کے مابین حقوق و فرائض کے اعتبار سے کیا توازن ہے؟ اِن تینوں معاملات میں توازن قائم کرنا انتہائی مشکل ہے. اگر فرد کو ذرا زیادہ آزادی دے دی جاتی ہے تو انارکی (chaos) پھیلتی ہے. آزادی کے نام پر دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے! دوسری طرف اگر فرد کی آزادی پر قدغنیں اور بندشیں لگا دی جائیں تو وہ ردّعمل ہوتا ہے جو کمیونزم کے خلاف ہوا. فطرتِ انسانی اور طبیعتِ انسانی نے یہ قدغنیں قبول نہیں کیں اور اِن کے خلاف بغاوت کی .

عورت اور مرد کے حقوق کے مابین توازن کا معاملہ بھی انتہائی حساس ہے. اس میزان کا پلڑا اگر ذرا سا مَرد کی جانب جھکا دیا جائے تو عورت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی‘ وہ بالکل بھیڑ بکری کی طرح مرد کی مِلکیت بن کر رہ جاتی ہے‘ اس کا کوئی تشخص نہیں رہتا اور وہ مرد کی جوتی کی نوک قرار پاتی ہے. لیکن اگر دوسرا پلڑا ذرا جھکا دیا جائے تو عورت کو جو حیثیت مل جاتی ہے وہ قوموں کی قسمتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے. اس سے خاندانی ادارہ ختم ہوجا تاہے اور گھر کے اندر کا چین اور سکون برباد ہو کر رہ جاتا ہے. اس کی سب سے بڑی مثال سکینڈے نیوین ممالک ہیں. معاشی اور اقتصادی اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ روئے ارضی پر اگر جنت دیکھنی ہو تو اِن ممالک کو دیکھ لیا جائے. وہاں کے شہریوں کی بنیادی ضروریات کس عمدگی کے ساتھ پوری ہو رہی ہیں! وہاں علاج اور تعلیم کی سہولیات سب کے لیے یکساں ہیں اور اس ضمن میں خیرات (charity) پر پلنے والوں اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے مابین کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے. لیکن ان ممالک میں مرد اور عورت کے حقوق کے مابین توازن برقرار نہیں رکھا گیا جس کے نتیجے میں خاندان کا ادارہ مضمحل ہوا ‘بلکہ ٹوٹ پھوٹ کرختم ہو گیا اور گھر کا سکون ناپید ہو گیا. چنانچہ آج خود کشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے .اس لیے کہ گھر کا سکون ختم ہو جانے کے باعث اعصاب پرشدید تناؤ ہے.

اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں خاندان کا ادارہ برقرار ہے. اگرچہ یہاں بھی نام نہاد طور پر بہت اونچی سطح کے لوگوں کے ہاں تو وہ صورتیں پیدا ہو گئی ہیں‘ تاہم مجموعی طور پر ہمارے ہاں خاندان کا ادارہ ابھی کافی حد تک محفوظ ہے. اس ضمن میں قرآن مجید میں لفظ ’’سکون‘‘ استعمال ہوا ہے. سورۃ الروم کی آیت ۲۱ ملاحظہ ہو:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی نوع سے جوڑے بنائے‘ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.‘‘
اگر انسان کو یہ سکون نہیں ملتا تو اگرچہ اس کی کھانے پینے کی ضروریات ‘ جنسی تسکین اوردوسری ضروریاتِ زندگی خوب پوری ہو رہی ہوں لیکن زندگی انسان کے لیے جہنم بن جائے گی.

مذکورہ بالا تین عقدہ ہائے لاینحل میں سے معاشیات کا مسئلہ سب سے مشکل ہے. سرمائے کو زیادہ کھل کھیلنے کا موقع دیں گے تو صورت حال ایک انتہا کو پہنچ جائے گی اور مزدور کا بدترین استحصال ہو گا‘ جبکہ مزدور کو زیادہ حقوق دے دیں گے تو سرمائے کو کوئی تحفظ حاصل نہیں رہے گا. اگر نیشنلائزیشن ہو جائے تو لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ ہی نہیں رہتا. آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں نیشنلائزیشن کے بعد کیا ہوا! روس کی اقتصادی موت کی اہم وجہ یہی نیشنلائزیشن تھی. تو اب سرمائے اور محنت میں توازن کے لیے کیا شکل اختیار کی جائے؟ یہ ہے درحقیقت عہد حاضر میں قرآن کی ہدایت کا اہم ترین حصہ! آج اس پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے.فزیکل سائنسز سے قرآن کی حقانیت کے ثبوت خود بخود ملتے چلے جائیں گے.جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے نئے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں اور اِن سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ قرآن حق ہے. لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن حکیم نے عمرانیاتِ انسانیہ اور اجتماعیات مثلاً اقتصادیات‘ سیاسیات اور سماجیات کے ضمن میں جو عدلِ اجتماعی دیا ہے اس کو مبرہن کیا جائے. علامہ اقبال کے یہ دو شعر اسی حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں: 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نور مصطفی اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است!

یعنی دنیا میں جو سوشل انقلاب آیا ہے اس کی ساری چمک دمک اور روشنی یا تو نورِ مصطفی  ہی سے مستعار اور ماخوذ ہے یا پھر انسان چار و ناچار حضور کے لائے ہوئے نظام ہی کی طرف بڑھ رہا ہے. وہ دائیں بائیں کی ٹھوکریں اور افراط و تفریط کے دھکے کھا کر لڑکھڑاتا ہوا چاروناچار اسی منزل کی طرف جا رہا ہے جہاں محمدٌ رسول اللہ اور قرآن حکیم نے اسے پہنچایا تھا.