نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ (صٓ) رمضان المبارک کا دوگونہ پروگرام اور اس کا حاصل
رمضان المبارک کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا اصل تحفہ قرآن حکیم ہے. ازروئے الفاظ قرآنی : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا‘‘. اس میں جو دو عبادات رکھی گئیں‘ ان میں سے ایک کو فرض قرار دیا گیا اور ایک کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا. رمضان میں دن کا روزہ فرض قرار دیا گیا‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے رات کا قیام بندے کی مرضی پر چھوڑ دیا. رسول اللہﷺ نے رمضان کی راتوں میں قیام اللیل کی بہت زیادہ ترغیب دلائی . چنانچہ احادیث میں دن کے روزے اور رات کے قیام کا ذکر بالکل متوازی طور پر ہوا ہے. حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث ہے :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــــــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَـــــــــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘ اورجس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے.‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ‘ یَقُوْلُ الصِّیَامُ : اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ‘ وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ‘ فَیُشَفَّعَانِ (رواہ احمد والطبرانی والبیھقی )
’’روزہ اور قرآن بندے کے حق میں شفاعت کریں گے. روزہ کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے سے اور اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے سے روکے رکھا‘ تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما! قرآن کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما! پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی.‘‘
رات کو جاگنا درحقیقت جو مطلوب ہے وہ کم سے کم تہائی رات ہے. ورنہ آدھی رات یا دو تہائی رات قیام کیا جائے‘ جیسا کہ سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات میں رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا. لیکن یہ کام ہر شخص کے لیے ممکن نہیں ہے. مزدور اور کاشت کار جو دن بھر محنت کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ رات کا قیام فرض نہیں کیا گیا. البتہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں تراویح کا نظام جاری کر دیا کہ نمازِ عشاء کے ساتھ متصلاً بیس رکعت میں لوگ ایک پارے کے لگ بھگ قرآن سن لیں‘ تاکہ ہر مسلمان اس مہینے میں قرآن میں سے گزر جائے.
ان لوگوں کا تو معاملہ یہ تھا کہ ان کی اپنی زبان عربی تھی اور ان کے لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے اس کا سننا ہی کافی تھا.وہ براہِ راست ان کے ذہن و قلب میں سرایت کر جاتا تھا.سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۸۵میں رمضان المبارک کے پورے پروگرام کا حاصل بایں الفاظ بیان کر دیاگیا: وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾ ’’اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت بخشی اور تاکہ شکر کرو‘‘. یعنی قرآن جیسی نعمت جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے‘ اس کا شکر اسی مناسبت سے ادا کر سکو.میں نے بارہا مثال دی ہے کہ کسی بچے کے ہاتھ پر اگرہیرا رکھ دیجیے تو اس کے اندر کوئی جذبۂ تشکر پیدا نہیں ہو گا. وہ تو سمجھے گا کہ یہ کانچ کا کوئی ٹکڑا ہے جو میرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے‘ لیکن یہی ہیرا کسی جوہری کے ہاتھ پر رکھیے جسے اس کی قدرو قیمت معلوم ہے تو اس کے اندر سے جو جذباتِ تشکر ابلیں گے ان کا آپ تصور نہیں کر سکتے. تو جب آپ پر قرآن کی عظمت منکشف ہو گی تبھی آپ اس نعمت کا اتنا شکر ادا کر سکیں گے جتنا کہ اس کا حق ہے. رمضان المبارک کا دوگونہ پروگرام عظمتِ قرآن کے انکشاف کے لیے رکھا گیا کہ دن میں روزہ رکھو‘ تاکہ تمہیں کچھ تقویٰ کی پونجی حاصل ہو جائے لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ اور رات کو قرآن کے ساتھ کھڑے رہو ‘تاکہ قرآن مجید کی عظمت تم پر منکشف ہو اور اس کی عظمت کے انکشاف کے ساتھ تم اللہ کا شکر ادا کر سکو.