زیر مطالعہ حدیث کے اگلے الفاظ ہیں : وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ ’’اور یہی صراطِ مستقیم ہے‘‘.نماز کی ہر رکعت میں ہم ’’اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت طلب کرتے ہیں. اس حدیث میں صراحت آگئی کہ صراطِ مستقیم یہی قرآن ہے.

ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ ’’یہ وہ شے ہے جس کے ہوتے ہوئے خواہشاتِ نفس (تمہیں) گمراہ نہیں کر سکیں گی‘‘.اس قرآن سے رابطہ ہو گا تو خواہشاتِ نفسانی ٹیڑھے رُخ پر نہیں لے جا سکیں گی. 

وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَۃُ ’’اور زبانیں اس میں گڑبڑ نہیں کرسکیں گی‘‘.اس کے ساتھ سابقہ آسمانی کتابوں والا معاملہ کرنا ممکن نہیں ہو گا کہ ذرا سا زبان کومروڑ کر پڑھا تو کچھ کا کچھ بن گیا. اس طرح اُن کتابوں میں تحریف ہو گئی. قرآن حکیم میں اس طرح کی تحریف کے سارے راستے بند کر دیے گئے ہیں. یہاں تک کہ رسول اللہ کو متوجہ کرنے کے لیے جو لفظ ’’رَاعِنَا‘‘ استعمال ہو رہا تھا‘ مسلمانوں کو اس سے بھی روک دیا گیا. رَاعِنَا کا مطلب ہے ذرا ہماری رعایت کیجیے‘ ہمارا لحاظ کیجیے‘ میں آپ کی بات سمجھا نہیں ہوں‘ آپ دوبارہ سمجھا دیجیے. لیکن یہود نے اسے زبان مروڑ کر ’’رَاعِیْنَا‘‘ کہنا شروع کر دیا تو اس لفظ کے استعمال سے روک دیا گیا. قرآن میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس کو توڑ مروڑ کر کہیں کا کہیں پہنچایا جا سکے. قرآن اپنی حفاظت خود کرتا ہے. قرآن میں ہے : لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ ’’اس پر باطل حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا‘ نہ سامنے سے نہ پیچھے سے.‘‘