جواہر علم و حکمت کا لامتناہی خزانہ

وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ’’اوراس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘. یہ وہ کان ہے جس میں سے علم و حکمت کے گوہر نایاب ہمیشہ نکلتے رہیں گے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا.حدیث مبارک کا یہ ٹکڑا بہت اہم ہے. ہم نے عام طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن کی تفسیر و تشریح میں جو کچھ اسلاف لکھ گئے‘ وہ حرفِ آخر ہے. یہ تصور غلط ہے‘ کیونکہ قرآن اتنا محدود نہیں ہے. ہیروں کی ایک کان سے آپ ہیرے نکالتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ معلوم ہو گا کان خالی ہو گئی. لیکن قرآن ایسی کان نہیں ہے جو کبھی خالی ہو جائے. اس میں سے ہیرے نکلتے رہیں گے. اس میں غور و فکر اور تدبرکے نتیجے میں علم و حکمت کے موتی ہمیشہ نکلتے رہیں گے.بقول اقبال ؎ 

آں کتابِ زندہ قرآن حکیم
حکمتِ او لا یزال است و قدیم 

خاص طور پر جدید سائنس جیسے جیسے ترقی کرے گی‘ قرآن میں سے نئے نئے ہیرے نکلتے چلے آئیں گے. سورۃ حٰم السجدۃ کے آخر میں فرمایا گیا ہے : سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ ’’ہم عنقریب اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی‘ یہاں تک کہ یہ بات بالکل مبرہن ہو جائے گی کہ یہ قرآن حق ہے‘‘.

چنانچہ آج کے سائنس دان انگشت بدنداں ہیں کہ چودہ سو برس پہلے یہ بات قرآن نے کہی ہے جو ہم پرآج کھلی ہے‘ جبکہ نہ مائیکرو سکوپ کا وجود تھا‘ نہ dissection کا معاملہ تھا اور ماں کے پیٹ میں جنین کی نشوونما کے تمام مراحل قرآن نے کس قدر صراحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں. البتہ جہاں تک فقہی و شرعی احکام کا تعلق ہے ا س ضمن میں آپ پیچھے کی طرف چلیں.اسلاف کی بات سنیں‘ پھر اُن کے بھی اسلاف کی بات سنیں. فقہائے متأخرین کا نقطۂ نظر معلوم کر لیا ہے تو متقدمین کا نقطۂ نظر معلوم کریں.ان سے بھی پیچھے جائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس پہنچ جائیں. ان سے بھی پیچھے جائیں اور محمدٌ رسول اللہکے قدموں میں سر رکھ دیں. جیسے اقبال نے کہاہے ؎ 

بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است 

’’اپنے آپ کو محمد مصطفی  کے قدموں تک پہنچا دو‘کیونکہ دین تو نام ہی ان کا ہے. اگر وہاں تک نہیں پہنچو گے تو یہ سراسر بولہبی ہی ہے.‘‘